banner image

Home ur Surah Ad Duha ayat 3 Translation Tafsir

اَلْضُّحٰی

Ad Duha

HR Background

مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰىﭤ(3)

ترجمہ: کنزالایمان کہ تمہیں تمہارے رب نے نہ چھوڑا اور نہ مکروہ جانا۔ ترجمہ: کنزالعرفان تمہارے رب نے نہ تمہیں چھوڑا اور نہ ناپسند کیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى: تمہارے رب نے نہ تمہیں  چھوڑا اور نہ ناپسند کیا۔} اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’(کفار کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے) حق جَلَّ وَعَلا نے فرمایا: ’’وَ الضُّحٰىۙ(۱)وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰى‘‘ قسم ہے دن چڑھے کی ،اور قسم رات کی جب اندھیری ڈالے، یاقسم اے محبوب! تیرے روئے روشن کی، اور قسم تیری زلف کی جب چمکتے رخساروں  پر بکھر آئے ’’ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى‘‘ نہ تجھے تیرے رب نے چھوڑا اورنہ دشمن بنایا۔‘‘اوریہ اَشقیاء (بدبخت) بھی دل میں  خوب سمجھتے ہیں  کہ خدا کی تجھ پر کیسی مِہر (یعنی رحمت) ہے، اس مِہر (یعنی رحمت) ہی کو دیکھ دیکھ کر جلے جاتے ہیں  ، اور حسد وعناد سے یہ طوفان جوڑتے ہیں  اور اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں  ،مگریہ خبر نہیں  کہ ’’وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى‘‘ بے شک آخرت تیرے لیے دنیا سے بہتر ہے۔‘‘ وہاں  جو نعمتیں  تجھ کو ملیں  گی نہ آنکھوں  نے دیکھیں  ،نہ کانوں  نے سنیں  ،نہ کسی بشر یا مَلک کے خطرے میں  آئیں  ،جن کا اِجمال یہ ہے ’’وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى‘‘ قریب ہے تجھے تیرا رب اتنا دے گا کہ تو راضی ہوجائے گا۔‘‘ اس دن دوست دشمن سب پرکھل جائے گا کہ تیرے برابر کوئی محبوب نہ تھا ۔خیر ،اگر آج یہ اندھے آخرت کا یقین نہیں  رکھتے تو (اے پیارے حبیب!) تجھ پر خدا کی عظیم ،جلیل ،کثیر، جزیل نعمتیں  رحمتیں  آج کی تو نہیں  قدیم ہی سے ہیں  ۔کیا تیرے پہلے اَحوال انہوں  نے نہ دیکھے اور ان سے یقین حاصل نہ کیا کہ جو نظرِ عنایت تجھ پر ہے ایسی نہیں  کہ کبھی بدل جائے، ’’اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًا فَاٰوٰى۪(۶) وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى۪(۷) وَ وَجَدَكَ عَآىٕلًا فَاَغْنٰىؕ(۸) فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹)وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْؕ(۱۰)وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ‘‘ کیا اس نے تمہیں  یتیم نہ پایا پھر جگہ دی۔ اور تمہیں  اپنی محبت میں  خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی۔اور تمہیں  حاجت مند پایا تو غنی کردیا۔تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔اور منگتا کو نہ جھڑکو۔اور اپنے رب کی نعمت کاخوب چرچا کرو۔( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۶۵-۱۶۶، ملخصاً)

کفار کے اعتراض سے معلوم ہوا کہ کفار ا س بات کو جان گئے تھے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے رسول ہیں  کیونکہ اگر انہیں  یہ بات معلوم نہ ہوتی تو وہ اس طرح کا اعتراض نہ کرتے،نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآنِ مجیدنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا اپنی طرف سے بنایا ہو اکلام نہیں  بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اسی کی طرف سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر نازل ہوا ہے کیونکہ اگر قرآنِ مجید نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا اپنی طرف سے بنایا ہو اکلا م ہو تا تو آپ کا کلام مسلسل جاری رہتا اور اس میں  وقفہ نہ آتا اور اس طرح کفار کو یہ اعتراض کرنے کا موقع نہ ملتا کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کو ان کے رب عَزَّوَجَلَّ نے چھوڑ دیا اور ناپسند کیا ہے۔