banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 134 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَۚ-لَىٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَ لَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ(134)

ترجمہ: کنزالایمان اور جب ان پر عذاب پڑتا کہتے اے موسیٰ ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے بیشک اگر تم ہم پر سے عذاب اٹھادو گے تو ہم ضرور تم پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا توکہتے، اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے ۔بیشک اگر آپ ہم سے عذاب اٹھادو گے تو ہم ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور ضرور ہم بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ:اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا۔} اس آیت میں مذکور لفظ ’’رِجْز‘‘ کا معنی عذاب ہے۔ اس کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہی پانچ قسموں کا عذاب ہے جو طوفان ،ٹڈیوں ، قمل، مینڈک اور خون کی صورت میں ان پر مُسلَّط کیا گیا۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد طاعون ہے اور یہ پہلے پانچ عذابوں کے بعد چھٹا عذاب ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۴، ۲ / ۱۳۲)

             اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون ا ور اس کی قوم پر جب طوفان ،ٹڈیوں ، قمَّل،مینڈک اور خون یا طاعون کی صورت میں عذاب نازل ہوتا تو اس وقت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کہتے : اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے اس عہد کے سبب دعا کرو جو اس کا تمہارے پاس ہے کہ ہمارے ایمان لانے کی صورت میں وہ ہمیں عذاب نہ دے گا۔ اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہم سے یہ عذاب دور کر دیا تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور آپ کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے ہم ضرور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ روانہ کردیں گے۔

اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کام ا س کے مقبول بندوں کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں :

          اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کام اس کے مقبول بندوں کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں اور مشکلات میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ان سے حاجت روائی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے ، جیسے عذاب دور کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے جبکہ فرعون اور اس کی قوم نے عذاب دور کرنے کی نسبت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف کرتے ہوئے عرض کی کہ ’’ لَىٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ‘‘ بے شک اگر آپ نے ہم سے یہ عذاب دور کر دیا۔ اس نسبت پر نہ تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کوئی اعتراض کیا نہ اللہ تعالیٰ نے کوئی عتاب فرمایا۔

             اسی طرح بیٹا دینا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کام ہے جبکہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے اس کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے فرمایا:

’’ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ ﳓ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا‘‘ (مریم: ۱۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: میں توتیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں تا کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔

            یونہی پرندوں کو پیدا کرنا ،مادر زاد اندھوں کو آنکھیں دینا، کوڑھیوں کو شفا یاب کرنا، مردوں کو زندہ کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کام ہے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا:

’’ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘ (آل عمران: ۴۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں۔سرِ دست قرآنِ مجید سے یہ تین مقامات ذکر کئے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے کاموں کو اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی طرف منسوب کیا گیا، اب صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی سیرت سے چند واقعات ملاحظہ ہوں کہ جب کبھی صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو کوئی مشکل یا مصیبت پیش آتی یا انہیں کوئی ضرورت یا حاجت درپیش ہوتی تو وہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف رجوع کرتے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنی مصیبتوں کی خلاصی اور اپنی حاجت روائی کے لئے عرض کرتے اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کی مشکلات دور کر دیتے اور حاجتیں پوری فرما دیتے تھے ، چنانچہ جنگِ بدر میں حضرت عکاشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تلوار ٹوٹ گئی تو وہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے ،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں ایک چھڑی دی جو ان کے ہاتھ میں پہنچتے ہی تلوار بن گئی۔(جامع الاصول فی احادیث الرسول، الرکن الثالث، الفن الثانی، الباب الرابع، حرف العین، الفصل الاول فی الاسمائ، القسم الاول، الفرع الاول، عکاشہ بن محصن، ۱۳ / ۳۲۴)

            جنگ ِاحد کے موقع پر حضرت قتادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھ تیر لگنے سے نکل گئی تو وہ ڈھیلا لے کر سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے اور آنکھ مانگی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں آنکھ عطا کر دی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، فی فضل الانصار، ۷ / ۵۴۲، الحدیث: ۱۵)

            غزوۂ خیبر کے موقع پر حضرت سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی ٹوٹی ہوئی پنڈلی لے کر بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسی وقت ان کی پنڈلی کو درست کر دیا۔( بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر، ۳ / ۸۳، الحدیث: ۴۲۰۶)

             قحط سے نجات پانے کیلئے ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دعا کی درخواست کی، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی تو ایسی بارش برسی کہ ہفتہ بھر رکنے کا نام نہ لیا۔ (بخاری، کتاب الاستسقاء، باب الاستسقاء علی المنبر، ۱ / ۳۴۸، الحدیث: ۱۰۱۵)

            صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ایک مرتبہ سفر میں پیاس سے جاں بَلَب ہوئے تو بارگاہ ِرسالت میں حاضر ہو کر اپنی پیا س کے بارے میں عرض کی ،سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انگلیوں سے پانی کے چشمے بہا کر انہیں سیراب کر دیا۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ۲ / ۴۹۵، الحدیث: ۳۵۷۹)

            اور حضرت ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنت مانگی تو انہیں جنت عطا کر دی۔ (مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶(۴۸۹)۔)