banner image

Home ur Surah Al Isra ayat 11 Translation Tafsir

بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْل (اَلْاَسْرَاء)

Al Isra

HR Background

وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا(11)

ترجمہ: کنزالایمان اور آدمی برائی کی دعا کرتا ہے جیسے بھلائی مانگتا ہے اور آدمی بڑا جلد باز ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور (کبھی ) آدمی برائی کی دعا کربیٹھتا ہے جیسے وہ بھلائی کی دعا کرتا ہے اور آدمی بڑا جلد باز ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ: اور آدمی برائی کی دعا کردیتا ہے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی جس طرح بھلائی کی دعائیں  مانگتا ہے اسی طرح بعض اوقات برائی کی دعا بھی کردیتا ہے جیسے کئی مرتبہ غصے میں  آکر اپنے اور اپنے گھر والوں  کے اور اپنے مال واولاد کے خلاف دعا کردیتا ہے ،غصہ میں  آکر ان سب کو کوستا ہے اور اُن کے لئے بددعائیں  کرتا ہے تو یہ انسان کی جلد بازی ہے( اور جلد بازی عموماً نقصان دیتی ہے ۔) اگر اللّٰہ تعالیٰ اس کی یہ بددعا ئیں  قبول کرلے تووہ شخص یا اس کے اہل و مال ہلاک ہوجائیں  لیکن اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول نہیں  فرماتا۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۱، ۵ / ۱۳۷، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۱۶۷، ملتقطاً) جیسا کہ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ‘‘(یونس: ۱۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور اگر اللّٰہ لوگوں  پرعذاب اسی طرح جلدی بھیج دیتا جس طرح وہ بھلائی جلدی طلب کرتے ہیں  تو ان کی مدت ان کی طرف پوری کردی جاتی۔

بد دعا کرنے سے بچیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ غصے میں  اپنے یا کسی مسلمان کیلئے بددعا نہیں  کرنی چاہیے اورہمیشہ منہ سے اچھی بات نکالنی چاہیے کہ نہ معلوم کونسا وقت قبولیت کا ہو۔ ہمارے معاشرے میں  عموماً مائیں  بچوں  کو طرح طرح کی بددعائیں  دیتی رہتی ہیں ، مثلا تیرا بیڑہ غرق ہو، تو تباہ ہوجائے، تو مرجائے، تجھے کیڑے پڑیں  وغیرہ، وغیرہ، اس طرح کے جملوں  سے احتراز لازم ہے۔

بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں  انسان سے کافر مراد ہے اور برائی کی دعا سے اس کا عذاب کی جلدی کرنا مراد ہے ، چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ نضر بن حارث کافر نے کہا، یارب! اگر یہ دین ِاسلام تیرے نزدیک حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا دردناک عذاب بھیج۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی یہ دعا قبول کرلی اور اُس کی گردن ماری گئی۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۶۱۷)

جلد بازی کی مذمت:

            اس آیت کے آخر میں  فرمایا گیا کہ آدمی بڑا جلد باز ہے۔ اسے سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے توہمارے معاشرے میں  لوگوں  کی ایک تعداد ایسی نظر آتی ہے جو دینی اور دنیوی دونوں  طرح کے کاموں  میں  نامطلوب جلد بازی سے کام لیتے ہیں ، جیسے وضو کرنے میں  ،نماز ادا کرنے میں ، تلاوتِ قرآن کرنے میں ، روزہ افطار کرنے میں  ، تراویح ادا کرنے میں ، قربانی کرنے میں ، ذبح کے بعد جانور کی کھال اتارنے میں ، ارکانِ حج ادا کرنے میں ، دعا کی قبولیت میں ، بد دعا کرنے میں ، کسی کو گناہگار قرار دینے میں ، کسی کے خلاف بد گمانی کرنے میں ، دنیا طلب کرنے میں ، نہ ملنے پر شکوہ کرنے میں ، رائے قائم کرنے میں ، کسی سے جھگڑا مول لینے میں ، کسی پرغصہ نافذ کرنے میں ، کسی کے خلاف یا کسی کام سے متعلق فیصلہ کرنے میں ، گاڑی چلانے میں ، گاڑی سے اترنے یا چڑھنے میں  اور روڈ پار کرنے وغیرہ بے شمار دینی اور دُنیوی اُمور میں  لوگ جلد بازی کرتے ہیں  اور ا س کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات لوگوں  کی عبادات ہی ضائع ہوجاتی ہیں  اور کبھی و ہ دنیوی معاملات میں  بھی شدید نقصان سے دوچار ہو جاتے ہیں  اور ان کے پاس ندامت اور پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں  رہتا۔ ایسے حضرات کو چاہئے کہ وہ درج ذیل دو اَحادیث سے نصیحت حاصل کریں  اور جلد بازی کی آفات اور اس کے نقصانات سے خود کو بچانے کی کوشش کریں  ۔

            حضرت سہل بن سعد ساعدی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بُردباری اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی التّأنّی والعجلۃ، ۳ / ۴۰۷، الحدیث:۲۰۱۹)

             حضرت عقبہ بن عامررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے تَوَقُّف کیا تو اس نے (اپنا مقصد) پا لیا یا قریب ہے کہ وہ( اسے )پالے اور جس نے جلدی کی تو اس نے خطا کی یا قریب ہے کہ وہ خطا کھا جائے۔( معجم الکبیر، ابن لہیعۃ عن ابی عشانۃ، ۱۷ / ۳۱۰، الحدیث: ۸۵۸)

            یاد رہے کہ بعض کام ایسے ہیں  جن میں  جلدی کرنا مذموم نہیں  بلکہ ان میں  جلدی کرنا شریعت کی طرف سے مطلوب ہے جیسے قضا نمازیں  اورنمازِ جنازہ ادا کرنے میں ، قرض کی ادائیگی میں ، زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہونے کے بعد زکوٰۃ ادا کرنے میں ، گناہو ں  سے توبہ کرنے میں،  نیک اعمال کرنے میں ، اولاد جوان ہو جائے تو ان کی شادی کرنے وغیرہ میں  جلدی کرنا۔ اچھی اور بری جلدی میں  فرق واضح ہے جسے ہر آدمی موقع محل کے مطابق سمجھ سکتا ہے۔([1])


[1] جلد بازی کی مذمت اور نقصانات وغیرہ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’جلد بازی‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا فائدہ مند ہے۔