banner image

Home ur Surah Al Jasia ayat 13 Translation Tafsir

اَلْجَاثِيَة

Surah Al Jasia

HR Background

وَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(13)

ترجمہ: کنزالایمان اور تمہارے لیے کام میں لگائے جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں اپنے حکم سے بے شک اس میں نشا نیاں ہیں سوچنے والوں کے لیے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اپنی طرف سے تمہارے کام میں لگادیا، بے شک اس میں سوچنے والوں کے لئے نشا نیاں ہیں۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ سَخَّرَ لَكُمْ: اور تمہارے کام میں  لگادیا۔} یعنی اے لوگو! جو کچھ آسمان میں  ہے جیسے سورج چاند اور ستارے اور جو کچھ زمین میں ہے جیسے جانور،درخت، پہاڑ اور کشتیاں  وغیرہ سب کا سب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت سے تمہارے فائدے اور مصلحت کے لئے کام میں  لگادیا ہے،لہٰذا تم اسی کی حمد کرو،اسی کی عبادت کرو اور صرف اسے ہی معبود مانو کیونکہ تمہیں  یہ نعمتیں  دینے میں  ا س کا کوئی شریک نہیں  بلکہ تم پر اتنے سارے انعامات کرنے میں  وہ یکتا ہے۔ بے شک اِس میں  اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت پر ان لوگوں  کے لئے عظیم الشّان نشانیاں  ہیں  جو اللہ تعالیٰ کی صنعتوں  میں  غور و فکر کرتے ہیں  اور ان دلائل میں  غور کر کے نصیحت حاصل کرتے ہیں ۔( تفسیرطبری، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱۱ / ۲۵۵-۲۵۶، روح البیان، الجاثیۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۸ / ۴۴۰، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ کی ذات میں  نہیں  بلکہ اس کی تخلیق میں  غوروفکر کرنا چاہئے:

             یہاں  ایک بات ذہن نشین رکھیں  کہ غور و فکر اللہ تعالیٰ کی ذات میں  نہیں  کرنا چاہئے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں  میں  کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں  غورو فکر کرنابعض اوقات کفر تک پہنچا دیتا ہے کیونکہ وہ انسانی عقل سے ماوراء ہے جبکہ اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں  میں  غورو فکر کرنا ایمان کی سعادتوں  سے سرفراز کر دیتا ہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  میں  غوروفکر کرو اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں  غوروفکر نہ کرو۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۴ / ۳۸۳، الحدیث: ۶۳۱۹)

            اور حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’شیطان تم میں  سے کسی ایک کے پاس آ کر کہتا ہے: آسمان کو کس نے پیدا کیا؟زمین کو کس نے پیدا کیا؟ وہ جواب دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔پھر شیطان سوال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟جب تم میں  سے کوئی ایک ایسا سوال سنے تو کہہ دے کہ میں  اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول پر ایمان لایا۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۵۱۴، الحدیث: ۱۸۹۶)