banner image

Home ur Surah Saba ayat 11 Translation Tafsir

سَبَا

Surah Saba

HR Background

اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(11)

ترجمہ: کنزالایمان کہ وسیع زر ہیں بنا اور بنانے میں اندازے کا لحاظ رکھ اور تم سب نیکی کرو بے شک میں تمہارے کام دیکھ رہا ہوں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان کہ کشادہ زِر ہیں بناؤ اور بنانے میں اندازے کا لحاظ رکھواور تم سب نیکی کرو بیشک میں تمہارے کام دیکھ رہا ہوں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ: کہ کشادہ زِر ہیں  بناؤ۔} ارشادفرمایا کہ ہم نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے لوہا نرم کرکے اُن سے فرمایا’’ کشادہ زِر ہیں  بناؤ اور بنانے میں  اندازے کا لحاظ رکھو کہ اس کے حلقے ایک جیسے اور مُتَوَسَّط ہوں  ، بہت تنگ یا کشادہ نہ ہوں  ۔ (بیضاوی، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۳۹۴، ملخصاً)

اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی کمائی نہیں :

            علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :اس آیت سے معلوم ہو اکہ عظمت و فضیلت رکھنے والی کسی شخصیت کا (ذریعۂ معاش کے لئے) کوئی صنعت اور فن سیکھنا جائز ہے اور اِس سے ان کے مرتبے میں  کوئی کمی نہ ہو گی بلکہ ان کی فضیلت میں ا ور زیادہ اضافہ ہو گا کیونکہ اس سے ان کی عاجزی کا اظہار ہوگااور دوسروں  سے بے نیازی بھی حاصل ہو گی۔ (روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۷ / ۲۶۸)

            یاد رہے کہ عمومی طور پر ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنے ہاتھ کی محنت سے کمائے اور اس سے خود بھی کھائے اور دوسروں  کو بھی کھلائے ۔اَحادیث میں  اس کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں ،ترغیب کے لئے یہاں  اس کے6فضائل ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت مقدام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کسی نے ہر گز اس سے بہتر کھانانہیں  کھایا جو وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائے اور بے شک اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا کرتے تھے ۔( بخاری، کتاب البیوع، باب کسب الرجل وعملہ بیدہ، ۲ / ۱۱، الحدیث: ۲۰۷۲)

(2)…حضرت مقدام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی کی اس سے بہتر کوئی کمائی نہیں  جو وہ اپنے ہاتھ سے کام کر کے کمائے اور وہ جو کچھ اپنی ذات، اپنے اہلِ خانہ،اپنی اولاد اور اپنے خادم پر خرچ کرتا ہے وہ سب صدقہ ہوتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب الحثّ علی المکاسب، ۳ / ۶، الحدیث: ۲۱۳۸)

 (3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’گناہوں  میں  سے بہت سے گناہ ایسے ہیں  جنہیں  نہ نماز مٹاتی ہے ،نہ روزہ مٹاتا ہے ،نہ حج اور عمرہ مٹاتے ہیں ۔ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، پھر کون سی چیز ان گناہوں  کو مٹاتی ہے ۔ارشاد فرمایا’’رزق تلاش کرنے میں  غمزدہ ہونا۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۴۲، الحدیث: ۱۰۲)

 (5)…حضرت زبیر بن عوام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی شخص رسی لے کر جائے اور اپنی پیٹھ پر لکڑیوں  کا گٹھا لا کر بیچے اور سوال کی ذلت سے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو بچائے تویہ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں  سے سوال کرے کہ لوگ اُسے دیں  یا نہ دیں ۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسألۃ، ۱ / ۴۹۷، الحدیث: ۱۴۷۱)

(6)… حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : ایک انصاری نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ اَقدس میں  حاضرہو کر سوال کیا تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تمہارے گھر میں  کچھ نہیں  ہے؟ اس نے عرض کی:جی ہے اور وہ ایک ٹاٹ ہے جس کا ایک حصہ ہم اوڑھتے ہیں  اور ایک حصہ بچھاتے ہیں  اور ایک لکڑی کا پیالہ ہے جس میں  ہم پانی پیتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا’’ دونوں  چیزوں  کو میرے حضورحاضر کرو۔انہوں  نے حاضر کر دیں  تو حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں  اپنے دست ِمبارک میں  لے کر ارشاد فرمایا’’ انہیں  کون خریدتا ہے؟ ایک صاحب نے عرض کی: ایک درہم کے عوض میں  خریدتا ہوں ۔ ارشاد فرمایا’’ ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟ یہ بات دو یا تین بار فرما ئی تو کسی اور صاحب نے عرض کی: میں  دو درہم کے بدلے لیتا ہوں ۔ انہیں  یہ دونوں  چیزیں  دے دیں  اور درہم لے لیے اور انصاری کو دونوں  درہم دے کر ارشاد فرمایا’’ ایک کا غلہ خرید کر گھر ڈال آؤ اور ایک کی کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔وہ لے کرحاضر ہوئے تو حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے دستِ مبارک سے اُس میں  دستہ ڈالا اور فرمایا’’ جاؤ لکڑیاں  کاٹو اور بیچو اور پندرہ دن تک میں  تمہیں  نہ دیکھوں  (یعنی اتنے دنوں  تک یہاں  حاضر نہ ہونا) وہ گئے اور لکڑیاں  کاٹ کر بیچتے رہے،پندرہ دن بعد حاضر ہوئے تو اُن کے پاس دس درہم تھے، چند درہم کا کپڑا خریدا اور چند کا غلہ۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ یہ اس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال تمہارے منہ پر چھالا بن کر آتا۔(ابو داؤد، کتاب الزکاۃ، باب ما تجوز فیہ المسألۃ، ۲ / ۱۶۸، الحدیث: ۱۶۴۱)

                        اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنے ہاتھ کی محنت سے کما کر کھانے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

{وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا: اور تم سب نیکی کرو۔} یعنی اے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے گھر والو! تم سب نیک اعمال کرو، بیشک میں تمہارے کام دیکھ رہا ہوں  تو میں  تمہیں  ان کی جزا دوں  گا ۔ (مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۹۵۸)

نیک اعمال کی توفیق پانے کے لئے ایک وظیفہ:

             تفسیر روح البیان میں  ہے کہ جو شخص جمعہ کی نما زسے پہلے100مرتبہ’’یَا بَصِیْرُ‘‘پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کی بصیرت میں  اضافہ فرما دے گا اور اسے اچھی باتوں  اور نیک کاموں  کی توفیق نصیب فرمائے گا۔( روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۷ / ۲۶۸)