banner image

Home ur Surah Yunus ayat 25 Translation Tafsir

يُوْنُس

Yunus

HR Background

وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِؕ-وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(25)

ترجمہ: کنزالایمان اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف پکارتا ہے اور جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ:اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔} دنیا کی بے ثباتی بیان فرمانے کے بعد اس آیت میں باقی رہنے والے گھر جنت کی طرف دعوت دی گئی اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو اس گھر کی طرف بلاتا ہے جس میں ہر قسم کی تکلیف اور مصیبت سے سلامتی ہے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ دارُالسَّلام سے مراد جنت ہے۔ اوریہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بے انتہاء رحمت اور اس کا کرم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو جنت کی دعوت دی۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۳۱۱)

جنت کے داعی:

یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو جنت کی طرف دعوت دیتا ہے اور یہ دعوت اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے ہے چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں کچھ فرشتے اس وقت حاضر ہوئے جب آپ سوئے ہوئے تھے ،ان میں سے بعض نے کہا کہ’’ آپ تو سوئے ہوئے ہیں اور بعض نے کہا کہ’’ ان کی آنکھ سوتی ہے اور دل جاگتا ہے ۔بعض کہنے لگے کہ ’’ان کی کوئی مثال بیان کرو تو انہوں نے کہا :ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک مکان بنایا اور اس میں طرح طرح کی نعمتیں مہیا کیں اور ایک بلانے والے کوبھیجا کہ لوگوں کو بلائے جس نے اس بلانے والے کی اطاعت کی وہ اس مکان میں داخل ہوا اور ان نعمتوں کو کھایا پیا اور جس نے بلانے والے کی اطاعت نہ کی وہ نہ مکان میں داخل ہوسکا، نہ کچھ کھا سکا ۔ پھر وہ کہنے لگے کہ اس کا مطلب بیان کیجئے تاکہ بات سمجھ میں آجائے۔ انہوں نے کہا کہ مکان سے مراد جنت ہے اور بلانے والے سے محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مراد ہیں ، جس نے ان کی اطاعت کی اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کی ، جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کی۔(بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۴ / ۴۹۹، الحدیث: ۷۲۸۱)

{وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ:اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔}اس آیت میں صراطِ مستقیم سے مراد دینِ اسلام ہے۔(بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۲۹۶) آیت کے اس حصے سے معلوم ہو اکہ اللہ تعالیٰ کی دعوت تو عام ہے کہ سب کوبلایا جا رہا ہے مگر اس کی ہدایت خاص ہے کہ وہ کسی کسی کو ملتی ہے۔