Home ≫ ur ≫ Surah Ad Duha ≫ ayat 1 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ الضُّحٰى(1)وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰى(2)
تفسیر: صراط الجنان
{وَالضُّحٰى: چڑھتے دن کے وقت کی قسم۔} اس سورت کاشانِ نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ چند روز وحی نہ آئی تو کفار نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کو اُن کے رب عَزَّوَجَلَّ نے چھوڑ دیا اورناپسند جانا ہے، اس پر سورۂ وَالضُّحٰی نازل ہوئی۔
بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’ضُحٰی‘‘سے وہ وقت مراد ہے جس وقت سورج بلند ہوتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اس وقت کی قَسم اس لئے ارشاد فرمائی کہ یہ وقت وہی ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے کلام سے مشرف کیا اور اسی وقت جادو گر سجدے میں گرے، اور بعض مفسرین کے نزدیک یہاں ’’ضُحٰی‘‘ سے پورا دن مراد ہے۔( تفسیر بغوی، الضّحی، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۶۵، مدارک، الضّحی، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۳۵۶، ملتقطاً)
چاشت کی نماز کے3 فضائل:
اس آیت میں چاشت کا ذکر ہے اس مناسبت سے یہاں چاشت کی نماز کے3 فضائل ملاحظہ ہوں ۔
(1)…حضرت ابو ذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی پر اس کے ہر جوڑ کے بدلے صدقہ ہے (اور کل تین سو ساٹھ جوڑ ہیں ) ہر تسبیح صدقہ ہے اور ہر حمد صدقہ ہے اور لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ کہنا صدقہ ہے اور اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہنا صدقہ ہے اور اچھی بات کا حکم کرنا صدقہ ہے اور بری بات سے منع کرنا صدقہ ہے اور ان سب کی طرف سے چاشت کی دو رکعتیں کفایت کرتی ہیں ۔( مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ الضّحی... الخ، ص۳۶۳، الحدیث: ۸۴(۷۲۰))
(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں سونے کا محل بنائے گا۔( ترمذی، کتاب الوتر، باب ما جاء فی صلاۃ الضّحی، ۲ / ۱۷، الحدیث: ۴۷۲)
(3)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے چاشت کی دو رکعتیں پڑھیں وہ غافل لوگوں میں نہیں لکھا جائے گا اور جو چار رکعت پڑھے گا وہ عبادت گزار لوگوں میں لکھا جائے گا اور جو چھ رکعت پڑھے گااس دن (اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے) اُس کی کفایت کی جائے گی اور جو آٹھ رکعت پڑھے تواللّٰہ تعالیٰ اسے فرمانبردار لوگوں میں لکھے گا اور جو بارہ رکعت پڑھے گااللّٰہ تعالیٰ اُس کے لیے جنت میں ایک محل بنائے گا اور کوئی دن یا رات ایسا نہیں جس میں اللّٰہ تعالیٰ بندوں پر احسان اور صدقہ نہ کرے اور اس بندے سے بڑھ کر کسی پر(اللّٰہ تعالیٰ نے) احسان نہ کیا جسے اپنا ذکر اِلہام کیا۔( الترغیب والترہیب، کتاب النوافل، الترغیب فی صلاۃ الضّحی، ۱ / ۳۱۸، الحدیث: ۱۰۱۱)
چاشت کی نمازسے متعلق دو شرعی مسائل:
یہاں چاشت کی نماز سے متعلق دو شرعی مسائل بھی ملاحظہ ہوں ،
(1)… چاشت کی نمازمُستحب ہے اورا س کی کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں ۔
(2)…اس کا وقت سورج بلند ہونے سے زوال یعنی نصفُ النّہار شرعی تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ چوتھائی دن چڑھے پڑھے۔ (بہار شریعت، حصہ چہارم، ۱ / ۶۷۵-۶۷۶)
{وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰى: اور رات کی جب وہ ڈھانپ دے۔} یعنی رات کی قسم جب وہ اپنی تاریکی سے ہرچیز کوڈھانپ دے۔ امام جعفر صادق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ چاشت سے مراد وہ چاشت ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کلام فرمایا اور رات سے معراج کی رات مراد ہے اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ چاشت سے جمالِ مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے نور کی طرف اشارہ ہے اور رات سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے عنبرین گیسو کی طرف اشارہ ہے۔ (روح البیان، الضّحی، تحت الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۴۵۳) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
ہے کلامِ الہٰی میں شمس وضُحٰے ترے چہرۂ نور فزا کی قسم
قسمِ شبِ تار میں راز یہ تھا کہ حبیب کی زلفِ دوتا کی قسم