نیتیں :
فرمانِ مصطفی ﷺ: نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌمِنْ عَمَلِہ
مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی۶ /۱۸۵حدیث: ۵۹۴۲)
دو مَدَنی پھول:
(۱) بِغیر اچّھی نیّت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا۔
(۲) جتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔(1) ہربارتَعَوُّذو (2) تَسْمِیَہ سے آغاز کروں گا (3) رضائے الہٰی کیلئے اس کتاب کا اوّل تا آخر مطالعہ کروں گا (4) باوضو اور (5) قبلہ رُو مطالعہ کروں گا (6) قراٰنی آیات کی درست مخارج کے ساتھ تلاوت کروں گا۔(7) ہرآیت کی تلاوت کے ساتھ اس کا ترجمہ اور تفسیر پڑھ کر قرآنِ کریم سمجھنے کی کوشش کرونگا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دوں گا۔ (8) اپنی طرف سے تفسیر کرنے کے بجائے علماءے حَقَّہ کی لکھی گئی تفاسیر پڑھ کر اپنے آپ کو ’’اپنی رائے سے تفسیر کرنے‘‘ کی وعید سے بچاؤں گا۔ (9) جن کاموں کے کرنے کا حکم ہے وہ کروں گا اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے دور رہوں گا۔ (10) اپنے عقائد واعمال کی اصلاح کروں گا اور بدعقیدگی سے خود بھی بچوں گا اور دوسرے اسلامی بھائیوں کو بھی بچانے کی کوشش کروں گا۔ (11) جن پر الله عَزَّوَجَلَّ کا انعام ہوا ان کی پیروی کرتے ہوئے رضائے الہٰی پانے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ (12) جن قوموں پر عتاب ہوا ان سے عبرت لیتے ہوئے الله عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے ڈروں گا۔ (13) شانِ رسالت میں نازل ہونے والی آیات پڑھ کراس کا خوب چرچا کرکے آپ صَلَّی الله تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے اپنی محبت وعقیدت میں مزید اضافہ کروں گا۔ (14) جہاں جہاں ’’اللہ‘‘کا نام پاک آئے گا وہاں عَ عَزَّوَجَلَّ اور (15) جہاں جہاں ’’سرکار‘‘کا اِسْمِ مبارَک آئے گا وہاں صَلَّی الله تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پڑھوں گا۔ (16) شرعی مسائل سیکھوں گا (17) اگر کوئی بات سمجھ نہ آئی تو علماءے کرام سے پوچھ لوں گا۔ (18) دوسروں کویہ تفسیر پڑھنے کی ترغیب دلاؤں گا۔ (19) اس کے مطالعہ کا ثواب آقا صَلَّی الله تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ساری امت کو ایصال کروں گا۔ (20) کتابت وغیرہ میں شرعی غلطی ملی تو ناشرین کو تحریری طور پر مطلع کروں گا (ناشرین ومصنف وغیرہ کو کتابوں کی اغلاط صرف زبانی بتانا خاص مفید نہیں ہوتا)
کچھ صراط الجنان کے بارے میں (از:شیخ طریقت امیر اہل سنت دامت برکاتھم العالیہ )
۱۴۲۲ھ ( 2002ء) کی بات ہے جب مفتیِ دعوتِ اسلامی الحاج محمد فارو ق مَدَنی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الله الْغَنِی ’’ چل مدینہ‘‘ کے قافلے میں ہمارے ساتھ تھے اور اِس سفرِ حج میں مجھے ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ بے حد کم گو، انتہائی سنجیدہ اور کثرت سے تلاوتِ قرآن کرنے والی اِس نہایت پرہیز گار شخصیت کی عَظَمت میرے دل میں گھر کر گئی۔ مکّۃُالمکرَّمہ زَادَھَااللہُ شَرَفًا وَّ تَعظِیْماً میں ہمارا مشورہ ہوا کہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے ترجمۂ کنزالایمان کی ایک آسان سی تفسیر ہونی چاہئے جس سے کم پڑھے لکھے عوام بھی فائدہ اٹھا سکیں ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ مفتیِ دعوتِ اسلامی قدّس سرّہ السّامی اِس بابَرَکت خدمت کے لئے بخوشی آمادہ ہوگئے۔مُجَوَّزہ تفسیر کا نام صِراطُ الْجِنان (یعنی جنّتوں کا راستہ) طے ہوا۔ تَبَرُّکاً مکّۃُ المکرَّمہزَادَھَااللہُ شَرَفًا وَّ تَعظِیْماً ہی میں اِس عظیم کام کا آغاز کردیا گیا، افسوس! مفتیِ دعوتِ اسلامی قدّس سرّہ السّامی کی زندگی نے ان کا ساتھ نہ دیا، 6 پاروں پر کام کرکے وہ (بروز جمعہ ۱۸ محرم الحرام ۱۴۲۷ھ) پردہ فرما گئے ۔
اللہ ربُّ العزّت کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
اٰمِیْن بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
چونکہ یہ کام انتہائی اہم تھا لہٰذا مَدَنی مرکز کی درخواست پرشیخ الحدیث ِوالتَّفسیر حضرت علامہ مو لانا الحاج مفتی ابوصالح محمد قاسم قادری مدّظلہ العالی نے اس کام کا از سرِ نو آغاز کیا۔ اگرچِہ اس نئے مواد میں مفتیِ دعوتِ اسلامی کے کئے گئے کام کو شامل نہ کیا جا سکا مگر چونکہ بُنیاد انہی نے رکھی تھی اور آغاز بھی مکّۃُ المکرَّمہ زَادَھَااللہُ شَرَفًا وَّ تَعظِیْماً کی پُر بہار فَضاؤں میں ہوا تھا اور ’’صِراطُ الْجِنان‘‘ نام بھی وہیں طے کیا گیا تھا لہٰذا حُصُولِ بَرَکت کیلئے یِہی نام باقی رکھا گیا ہے۔
کنز الایمان اگرچِہ اپنے دور کے اعتبار سے نہایت فَصیح ترجَمہ ہے تاہم اس کے بے شمار الفاظ ایسے ہیں جوا ب ہمارے یہاں رائج نہ رہنے کے سبب عوام کی فہم سے بالا تر ہیں لہٰذا اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ترجمۂ قراٰن کنز الایمان شریف کو مِن و عَن باقی رکھتے ہوئے اِسی سے روشنی لیکر دورِحاضر کے تقاضے کے مطابِق حضرتِ علامہ مفتی محمد قاسم صاحِب مد ظلہ نے مَاشَاءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ا یک اور ترجَمے کا بھی اضافہ فرمایا، اس کانام کنزُالْعِرفان رکھا ہے۔ اِ س کام میں دعوتِ اسلامی کی میری عزیز اور پیاری مجلس،المدینۃ العلمیہ کے مَدَنی عُلَما نے بھی حصّہ لیا بالخصوص مولانا ذُوالقَرنَین مَدَنی سلَّمہُ الغَنِینے خوب معاونت فرمائی اور اس طرح صِراطُ الجِنان کی 3 پاروں پرمشتمل پہلی جلدآپ کے ہاتھوں میں ہے۔اللہ تعالیٰ الحاج مفتی محمد قاسم صاحِب مدظلہ سمیت اِس کَنْزُالْاِیْمَانِ فِیْ تَرْجَمَۃِ الْقُرْاٰنِ وَصِرَاطُ الْجِنَانِ فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُرْاٰنِ کے مبارَک کام میں اپنا اپنا حصّہ ملانے والوں کو دنیا و آخِرت کی خوب خوب بھلائیاں عنایت فرمائے اور تمام عاشقانِ رسول کیلئے یہ تفسیرنفع بخش بنائے۔
اٰمِیْن بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
صراط الجنان کی 19 خصوصیات
اس تفسیر کی سب سے بڑی خصو صیت یہ ہے کہ اس میں آج کل کے فرقہ ورانہ ماحول کی نمائندگی نہیں کی گئی، ایسے سارے مقامات سے اعتدال کی راہ چنی گئی ہے۔ جدید و قدیم تفاسیر اور دیگر علوم اسلامیہ پر مشتمل ذخیرہ کتب کی روشنی میں قرآن مجید کی آیات کے مطالب و معانی اور ان سے حاصل ہونے والے درس و مسائل کا موجود زمانے کے تقاضوں کے مطابق انتہائی سہل بیان، نیز مسلمانوں کے عقائد دین اسلام کے اوصاف و خصوصیات، اہلسنت کے نظریات و معمولات، اخلاقیات، باطنی امراض اور معاشرتی برائیوں سے متعلق قرآن و حدیث، اقوال صحابہ تابعین اور دیگر بزرگان دین کے ارشادات کی روشنی میں ایک جامع تفسیر ہے۔ مزید خصوصیات یہ ہیں ۔
1) قرآنِ مجید کی ہر آیت کے تحت دو ترجمے ذکر کیے گئے ہیں، ایک اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کا ترجمہ ” کنز الایمان ‘‘ہے۔ جبکہ دوسرا ترجمہ ” کنز العرفان “ ہے۔ اردو زبان میں چونکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کئی قسم کی تبدیلیاں ہوئیں قدیم طرز پر لکھنے جانے والے الفاظ کی جگہ نئے رسم الخط نے لے لی، فی زمانہ ان الفاظ کا استعمال کم ہونے کی وجہ سے عام قاری کو دشواری پیش آسکتی تھی اسی خیال کے پیش نظر ترجمہ کنز الایمان سے استفادہ کرتے ہوئے، ترجمہ قرآن کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق آسان اردو میں ترجمہ ” کنز العرفان ‘‘ شامل کیا گیا ہے ۔
2) قدیم و جدید تفاسیر اور دیگر علوم اسلامیہ پر مشتمل معتبر اور قابلِ اعتماد علما ِ کرام بالخصوص امام احمد رضا خان کی لکھی ہوئی کثیر کتابوں سے کلام اخذ کر کے اسے باحوالہ لکھا گیاہے، نیز بعض مقامات پر ان بزرگوں کے ذکر کردہ کلام کو اپنے انداز اورالفاظ میں بغیر حوالے کے پیش کرنے کی سعی بھی کئی گئی ہے تاکہ ان کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہ ہو جو انہوں نے اپنی کتاب میں بیان نہ فرمائی ہو۔
3) عام لوگوں کی سہولت کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث و روایات اورکتب تفاسیر وغیرہ کی عربی عبارتیں ذکر نہیں کی گئی، نیز ان کا لفظ بلفظ ترجمہ کرنے کی بجائے آسان اور با محاورہ ترجمہ کیا گیا ہے تاکہ سمجھنا آسان ہو، نیز تفہیم میں آسانی کے لیے کئی ایک مقامات ہے عربی عبارتوں کا خلاصہ کلام ذکرکیا ہے۔
4) جہاں کئی تفاسیر سے کلام اخذ کیا ہے وہاں سب کا کلام ایک ساتھ ذکر کیا ہے تاکہ قاری کے مطالعے کا تسلسل برقرار رہے اور آخر میں سب کتابوں کا ایک ساتھ حوالہ دے کر آخر میں ملتقطا یا ملخصا لکھ دیا ہے۔
5) صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی کے تفسیری حاشیہ خزائن العرفان کے مشکل الفاظ کو آسان الفاظ میں بدل کر تقریباً مکمل ہی اس تفسیر میں شامل کیا گیا ہے نیز ضروری مقامات کی تخریج و تحقیق بھی کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی کے حاشیہ نور العرفان سے بھی مدد لی گئی ہے اور اس کے بھی کثیر حصے کو بھی معمولی تبدیلیوں کے ساتھ شامل کیا ہے۔
6)صراط الجنان کو متوسط رکھا گیا ہے اوراس بات کا خاص طور پر خیال کیا گیا ہے کہ تفسیر نہ زیادہ طویل ہوکہ پڑھنے والا یہ گمان کر بیٹھے کہ یہ تفسیر کے علاوہ کوئی اور دینی کتاب ہے۔ یونہی صراط الجنان اتنی مختصر بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے عام قاری کی تفسیری تشنگی باقی رہ جائے۔
7) اسی طرح ایک عام قاری علمی اور فنی ابحاث پڑھتے ہوئے تفسیر ی نکات سمجھنے میں بہت دشواری محسوس کرتا ہے لہذا جن علمی اور فنی ابحاث کو جاننے میں عوام کا خاطر خواہ فائدہ نہیں تھا ان سے گریز کر کے تفسیر کو جامع بنایا گیا ہے البتہ جہاں جہاں آیات کی تفہیم کے لیے ان فنی اور علمی ابحاث کی ضرورت تھی وہاں حتّی الامکان انہیں آسان انداز میں ذکر کرنے کی کوشش ضرورکی گئی ہے تاکہ بات پوری طرح واضح ہو سکے۔
8) عام طور پرکتابوں میں اردو کی مشکل تراکیب اور طویل جملوں کو استعمال کرکے کلام کو عمدہ اور خوبصورت بنانا معمول ہے لیکن اس کی وجہ سے کم پڑھے لکھے افراد کے لیے اس انداز بیان سے فائدہ اٹھانا مشکل ہوجاتا ہے لہذا صراط الجنان میں مشکل کی بجائے آسان الفاظ اور طویل جملوں کی بجائے مختصر اور عام فہم جملے استعمال کیے گئے ہیں تاکہ کم پڑھا لکھا یا متوسط درجے کی اردو زبان سے واقف شخص تفسیر کو پڑھ کر باآسانی سمجھ سکے اور قرآنِ مجید کی تعلیمات اور احکام اسلامی کوسمجھ کر ان پر عمل کر سکے۔
9) مختلف مقامات پر عقائد ِاہلسنّت اور نظریات ومعمولات ِاہلسنّت کی دلائل کے ساتھ وضاحت کی گئی ہے ۔
10) مفسر کے لیے ایک سعادت یہ بھی ہے کہ وہ حضور پر نورﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور فضائل و مناقب بیان کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتا، لہذاصراط الجنان میں سرکار دو جہاںﷺکی سیرت طیبہ کے مختلف نورانی گوشوں اور فضائل و مناقب کو خاص طور پر بیان کرکے تفسیر کی افادیت میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ صحابہ اور اولیا کی پاکیزہ سیرت کے روشن پہلو اور حکمت بھرے واقعات ،قبر و آخرت کی تیاری کرنے والوں کے لیے کسی انمول خزانے سے کم نہیں ہیں۔
11) قرآنِ مجید میں جہاں شرعی احکام و مسائل کا بیان ہوا وہاں تفسیر میں ضروری مسائل آسان انداز میں بیان کیے گئے ہیں، جہاں جہنم کے عذابات اور جنت کے انعامات کا ذکر ہوا وہاں عذابِ جہنم سے بچنے اور جنتی نعمتوں کے حصول کی ترغیب پر مشتمل مضامین آسان اور ترغیبی انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ یونہی جہاں اعمال کی اصلاح کا ذکر ہے وہاں اصلاحِ اعمال کی ترغیب وت رہیب ہے ،جہاں معاشرتی برائیوں کا تذکرہ ہوا وہاں ان سے متعلق ضروری ہدایات کو احسن انداز میں سمجھایا گیا ہے۔
12) امت مسلمہ میں پائے جانے والے ہلاکت خیز گناہوں اور باطنی امراض مثلا ًتکبر، حسد اور خود پسندی جیسی باطنی بیماریوں کے بارے میں قدرے تفصیل سے کلام کیا گیاہے۔
13) اسلامی معاشرت کے حسن کو برقرار رکھنے کے لیے ان سے متعلق بھی بہت سا اصلاحی مواد شامل کیا گیا ہے۔
14) علمی و اصلاحی درس اور مضامین نے علما ،خطبا ء ،واعظین اور مبلغین حضرات کے لیے اس تفسیر کو مزید پر کشش بنا دیا ہے۔
15) سورتوں کا تعارف ،قرآنی آیات کے شان نزول ،حکمتیں اور مقاصد جگہ جگہ اپنے انوار و تجلیات سے اوراق کو زینت بخش رہے ہیں۔
16) جو طالب ِحق کی تسکینِ روح اور اطمینانِ قلب کے لیے بہت کافی ہے۔
17) آیات سے حاصل ہونے والے نکات اور معلوم ہونے والی اہم اور ضروری باتوں کوعلیحدہ سے ذکر کیا گیا ہے قاری جوں جوں انہیں پڑھنا شروع کرتا ہے اس کے علم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
18) موقع کی مناسبت سے مختلف مقامات پر قرآن وحدیث کے اذکار اوربزرگان دین سے منقول وظائف بیان کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔
19) ہر جلد کی ابتدا میں تفصیلی جبکہ آخر میں ضمنی فہرست موجود ہے جس سے قرآنی مضامین کو سمجھنے اور اپنے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے میں بڑی آسانی رہتی ہے۔
سال اشاعت :
● جلد اول رجب المرجب 1434ھ،مئی 2013ء، پارہ 1 تا 3 (524صفحات)
● جلد دوم محرم الحرام 1434ھ، نومبر 2013، پارہ 4 تا 6 (495 صفحات)
● جلد سوم شعبان المکرم 1434ھ، جون 2014، پارہ 7 تا 9 (581 صفحات)
● جلد چہارم رمضان المبارک 1434ھ، جولائی 2014، پارہ 10تا12 (599 صفحات)
● جلد پنجم ربیع الثانی 1436ھ، جنوری 2015، (624 صفحات)
● جلد ششم رمضان المبارک 1436ھ، جولائی 2015، (717 صفحات)
● جلد ہفتم صفر المظفر 1437ھ، نومبر 2015، (619 صفحات)
● جلد ہشتم رمضان المبارک 1437ھ، جون 2016، (674 صفحات)
● جلد نہم صفر المظفر 1438ھ، نومبر 2016، صفحات(777)
● جلد دہم شعبان المعظم 1438ھ، مئی 2017، صفحات(899)
مصنف کا تعارف
اسم گرامی :محمد قاسم۔
کنیت : ابو الصالح۔
لقب : شیخ الحدیث والتفسیر،مفتیٔ اہلسنت۔
ولادت و مقام ولادت : 6 جون 1977، فیصل آباد،پنجاب ،پاکستان ۔
بیعت و ارادت : آپ شیخ طریقت،امیر اہلسنت ،بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادریدامت برکاتہم العالیہ سے مرید ہیں۔
دنیاوی تعلیم: گریجویشن۔آپ نے M.A Previousکے امتحانات دئیے اور فرسٹ ڈویژن حاصل کی جبکہ دینی مصروفیات کے سببM.A Final کے امتحانات دینے کا آج تک ٹائم نہیں ملا۔
دینی تعلیم: 1992,93ء میں فیصل آباد فیضان مدینہ سے پونے دو سال کی مدت میں قرآنِ پا ک حفظ کیا ۔
درسِ نظامی(عالم کورس) : 1994ء میں درس نظامی میں داخلہ لے لیا،ابتداء میں ’’جامعہ رضویہ‘‘ فیصل آباد،پھر’’جامعہ قادریہ‘‘ فیصل آباد اور بعد ازیں’’جامعہ نظامیہ رضویہ‘‘ لاہورمیں تعلیم حاصل کی اور آخر میں دورۂ حدیث’’ جامعہ رضویہ‘‘ فیصل آباد میں کیا۔ان تمام جامعات میں پاکستان کے صف ِ اول کے معروف، جید ، فاضل علمائے کرام سے علمی اکتساب کیا۔ دورانِ تعلیم سب سے بڑی مصروفیت نصابی اور غیر نصابی کتب کا مطالعہ رہا۔مادری زبان اوررائج الوقت مشہور زبانوں میں مہارت: آپ کی مادری زبان پنجابی ہے اور ا س کے علاوہ چار زبانوں میں مختلف نوعیت کی مہارت رکھتے ہیں (1)اردو۔ لکھنے ،بولنے، پڑھنے اور سمجھنے میں اچھی مہارت ہے۔(2)عربی۔پڑھنے میں عمدہ مہارت ہے۔(3) فارسی۔ بآسانی پڑھ لیتے ہیں۔(4)انگلش۔ میں اچھی مہارت ہے۔ مدنی چینل پر ایک سو کے قریب انگلش پروگرام کرچکے ہیں۔
دورانِ تعلیم کے اہم واقعات : (1)دورانِ تعلیم نمازوں کی بطورِ خاص پابندی رہی اورکبھی نماز قضا نہیں کی۔سفر بھی اس انداز میں پلان کرتے کہ کوئی نماز قضا نہ ہو۔(2)اپنے اصل مقصد ’’حصول علم ‘‘پر بھر پور توجہ مرکوز رکھی اور کسی فضول مصروفیت کو نہیں اپنایا۔ (3) عام طور پر اساتذہ طالب علموں کو پڑھنے اور مطالعہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں جبکہ آپ سے متعلق حال یہ تھا کہ متعدد اساتذہ شفقت فرماتےہوئے صحت کےلئے زیادہ پڑھنے سے منع کرتے تھے۔ (4)اسباق کی ضروری تیاری کرنا عادت کا حصہ تھا اور شاید ہی کبھی بغیر تیاری کے کلاس میں بیٹھے ہوں۔نفس کتاب اور حواشی کا مطالعہ مستقل عادت میں داخل تھا۔ (5)رات میں جب اکثر طلبا سورہےہوتے تو اس وقت بھی آپ پڑھائی میں مصروف ہوتے تھے۔(6)طلبا کے کھیل کے وقت ان کے ساتھ کھیلنے کی بجائے پڑھائی میں مشغول ہوتے تھے۔(7)آپ کے شوق مطالعہ اورپڑھائی کی لگن کو دیکھتے ہوئے اساتذۂ کرام آپ پر خصوصی شفقت کیا کرتے تھے۔
شادی خانہ آبادی: سن 2007میں آپ کی شادی آبائی شہر فیصل آباد میں ہوئی ۔
اولاد : اللہ تعالیٰ نےآپ کوچاربیٹیوں سے نوازا ہےجن کے نام یہ ہیں (1)زینب(2)مریم (3)فاطمہ (4) انیسہ۔
تربیتِ اولاد: اولاد کی تربیت کے حوالے سے آپ خصوصی توجہ فرماتے ہیں اسی لیے انہیں مکمل اسلامی ماحول فراہم کیا ، گھر میں بھی نعت و تلاوت و ذکر کا ماحول ہےاور گاہے بگاہے انہیں اچھے اخلاق کی تربیت دیتے رہتے ہیں ۔
اوصاف: ا آپ کا اندازِ گفتگوبہت مدلل ہے،فہم ِ قرآن، شوقِ علم اور کتب بینی طبیعت میں داخل ہیں۔ معاشرتی زندگی میں کفایت شعاری،وسعت ظرفی، دوسروں کی حوصلہ افزائی،وقت کی قدر دانی، رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک اورعام مسلمانوں کی خیر خواہی اوردلجوئی کا معمول ہے۔دوست احباب سےتعزیت و عیادت، غمخواری،غریب پروری معمولات میں شامل ہے۔ وقف کی چیزیں استعمال کرنے میں احتیاط،مال کے ضیاع سے بچنے اورشہرت و ناموری سے پرہیز مزاج کا حصہ ہے۔
اساتذہ کرام: آپ نے اپنے وقت کے جید علمائے کرام جیسے علامہ عبد القیوم ہزاروی ،شیخ الحدیث مولانا غلام نبی ،علامہ عبد الستار سعیدی،مفتی گل احمد عتیقی، مفتی نذیر احمد سیالوی ، علامہ صدیق ہزاروی دامت برکاتھم العالیہ اور دیگر اساتذہ کرام سے اکتسابِ علم کیا۔
تدریس: تقریبا آٹھ سال دعوت اسلامی کے مختلف جامعات میں تدریس فرمائی۔
فقہ و افتاء: دار الافتاء اہلسنت میں فتوی نویسی کا آغاز کیا اور اب رئیس دار الافتاء اہلسنت اور مجلس تحقیقات شرعیہ کے نگران کے منصب پر فائز ہیں۔
تلامذہ: آپ سے سینکڑوں طلباء کرام اکتساب علم کی سعادت پا چکے ہیں اور بہت سے طلباء اہم ترین دینی خدمات میں مصروف ہیں ،ان میں سے مفتی علی اصغر مدنی، مفتی ہاشم خان مدنی، نائب مفتی سجاد مدنی،نائب مفتی حسان مدنی،نائب مفتی نوید رضا عطاری، سینئیر متخصص مولانا ماجد علی مدنی، سینئیر متخصص مولانا جمیل مدنی اورسینئیر متخصص مولانا شفیق مدنی سر فہرست ہیں۔
تصانیف: آپ نے متعدد کتب بھی تصنیف فرمائی ہیں جن میں سے کچھ زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں جیسے
کَنْزُ الْعِرْفَانْ فِیْ تَرْجَمَۃِ الْقُرْآنْ،مَعْرِفَۃُ الْقُرْآنْ عَلٰی کَنْزِ الْعِرْفَانْ (6 جلدیں)۔
صِرَاطُ الْجِنَانْ فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُرْآنْ (10 جلدیں)۔
ایمان کی حفاظت۔
فیضان دعا۔
دکھ درد اور بیماریوں کا علاج۔
وقف کے شرعی احکام۔
علم اور علماء کی اہمیت۔
رحمتوں کی برسات۔
عشق رسول مع امتی پر حقوق مصطفی۔
رسائل قادریہ۔
مقدمہ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ
اَمَّابَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ طبِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِطیہ مقدمہ قرآن مجید اور اس کی تفسیر سے متعلق چند اہم اور ضروری باتوں پر مشتمل ہے اور اسے تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلا باب:
قرآنِ کریم کا تعارف،اس کی عظمت و فضیلت
اور تلاوت کے فضائل و آداب وغیرہ کا بیانقرآنِ مجید کا مختصر تعارف:
قرآنِ کریم ا س ربِّ عظیم عَزَّوَجَلَّ کا بے مثل کلام ہے جو اکیلا معبود، تنہا خالق اور ساری کائنات کا حقیقی مالک ہے، وہی تمام جہانوں کو پالنے والا اور پوری کائنات کے نظام کو مربوط ترین انداز میں چلانے والا ہے، دنیا و آخرت کی ہر بھلائی حقیقی طور پر اسی کے دستِ قدرت میں ہے اور وہ جسے جو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جسے جس چیز سے چاہے محروم کر دیتا ہے ،وہ جسے چاہے عزت دیتا اور جسے چاہے ذلت و رسوائی سے دوچار کر دیتا ہے۔ وہ جسے چاہے ہدایت دیتا اور جسے چاہے گمراہ کر دیتا ہے اور اس نے اپنا یہ کلام رسولوں کے سردار، دو عالم کے تاجدار، حبیب ِبے مثال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر نازل فرمایا تاکہ اس کے ذریعے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ لوگوں کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور دینِ حق کی پیروی کرنے کی طرف بلائیں اور شرک و کفر و نافرمانی کے انجام سے ڈرائیں، لوگوں کو کفرو شرک اور گناہوں کے تاریک راستوں سے نکال کر ایمان اور اسلام کے روشن اور مستقیم راستے کی طرف ہدایت دیں اور ان کے لئے دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانی کی راہیں آسان فرمائیں۔
قرآنِ مجید نازل ہونے کی ابتداء رمضان کے بابرکت مہینے میں ہوئی اورنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اسے لانے کا شرف روحُ الامین حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو حاصل ہوا اور شب ِ معراج کچھ آیات بلاواسطہ بھی عطا ہوئیں …قرآنِ مجید کو دنیا کی فصیح ترین زبان یعنی عربی زبان میں نازل کیا گیا تاکہ لوگ اسے سمجھ سکیں اور عرب کے رہنے والوں اور کفارِ قریش کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم اس کلام کو سن کر کیا کریں گے جسے ہم سمجھ ہی نہیں سکتے …قرآن مجید کو تورات و انجیل کی طرح ایک ہی مرتبہ نہیں اتارا گیا بلکہ حالات و واقعات کے حساب سے تھوڑا تھوڑا کر کے تقریباً 23سال کے عرصے میں اسے نازل کیا گیا تاکہ اس کے احکام پر عمل کرنا مسلمانوں پر بھاری نہ پڑے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے قلب اطہر کو مضبوطی حاصل ہو، اور یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر بہت بڑا احسان ہے … قرآنِ عظیم کے کثیر اسماء ہیں جو کہ اس کتاب کی عظمت و شرف کی دلیل ہیں ، ان میں سے چھ مشہوراسماء یہ ہیں :
(1) قرآن۔ (2) برہان۔ (3) فرقان۔ (4 ) کتاب۔ (5 ) مصحف۔ (6 )نور۔
قرآنِ عظیم کی عظمت:
اللہ تعالیٰ نے جو عظمت و شان قرآنِ مجید کو عطا کی ہے وہ کسی اور کلام کو حاصل نہیں ،یہاں اس کی 11عظمتیں ملاحظہ ہوں۔
(1)…قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی واضح دلیل اور ا س کا نازل کیا ہو انور ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا‘‘ (النساء: ۱۷۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگوبیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آگئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نورنازل کیا۔
(2)…اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی اس کلام کو اپنی طرف سے نہیں بنا سکتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰى مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ تَفْصِیْلَ الْكِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘(یونس: ۳۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس قرآن کی یہ شان نہیں کہ اللہ کے نازل کئے بغیر کوئی اسے اپنی طرف سے بنالے ، ہاں یہ اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق ہے اور لوحِ محفوظ کی تفصیل ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔
(3)…تمام جن و اِنس مل کر اور ایک دوسرے کی مدد کر کے بھی قرآنِ عظیم جیسا کلام نہیں لا سکتے ،چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’قُلْ لَّىٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا‘‘( بنی اسرائیل: ۸۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم فرماؤ: اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو۔
(4)…یہ قرآن باطل کی رسائی سے دور ہے کہ اس کے پاس کسی طرف سے باطل نہیں آ سکتا،جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’لَا یَاْتِیْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ لَا مِنْ خَلْفِهٖؕ-تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَكِیْمٍ حَمِیْدٍ‘‘(حم السجدہ:۴۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:باطل اس کے سامنے اور اس کے پیچھے (کسی طرف )سے بھی اس کے پاس نہیں آسکتا۔وہ قرآن اس کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے جو حکمت والا، تعریف کے لائق ہے۔
(5)…یہ کلام سیدھااور مستقیم ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی کَجی ، ٹیڑھا پن نہیں ہے بلکہ نہایت مُعتدل اور مَصالحِ عِباد پر مشتمل کتاب ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ(۱) قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ وَ یُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا حَسَنًا‘‘ (کہف: ۱، ۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں رکھی۔ لوگوں کی مصلحتوں کو قائم رکھنے والی نہایت معتدل کتاب تاکہ اللہ کی طرف سے سخت عذاب سے ڈرائے اوراچھے اعمال کرنے والے مومنوں کو خوشخبری دے کہ ان کے لیے اچھا ثواب ہے۔
(6)…یہ محفوظ کتاب ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘(حجر: ۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
(7)…یہ جامعُ العلوم کتاب ہے کہ اَولین و آخِرین کا علم اِس کتاب میں موجود ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ‘‘(نحل: ۸۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا جو ہر چیز کا روشن بیان ہے۔
اور ارشاد فرماتاہے :
’’مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ‘‘(انعام:۳۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:یعنی ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
ترمذی کی حدیث میں ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کتابُ اللہ میں تم سے پہلے واقعات کی بھی خبر ہے ،تم سے بعد کے واقعات کی بھی اور تمہارے آپس کے فیصلے ہیں۔(ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل القرآن، ۴ / ۴۱۴، الحدیث: ۲۹۱۵)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’قرآن مجید ہر نافع علم پر مشتمل ہے یعنی ا س میں گزشتہ واقعات کی خبریں اور آئندہ ہونے والے واقعات کا علم موجود ہے، ہر حلال و حرام کا حکم اس میں مذکور ہے، اور اس میں ان تمام چیزوں کا علم ہے جن کی لوگوں کو اپنے دنیوی ،دینی ،معاشی اور اُخروی معاملات میں ضرورت ہے۔(ابن کثیر، النحل، تحت الآیۃ: ۸۹، ۴ / ۵۱۰)
(8)…یہ قرآن اس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ‘‘ (بنی اسرائیل: ۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے۔
(9)…یہ مسلمانوں کے لئے ہدایت،رحمت ،بشارت،نصیحت اور شفاء ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ
’’وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ‘‘ (نحل: ۸۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور مسلمانوں کیلئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔
اور ارشاد فرماتاہے :
’’هٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘(اٰل عمران: ۱۳۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:یہ لوگوں کے لئے ایک بیان اور رہنمائی ہے اور پرہیزگاروں کیلئے نصیحت ہے۔
اور ارشاد فرماتاہے :
’’وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ-وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا‘‘ (بنی اسرائیل:۸۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم قرآن میں وہ چیز اتارتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور اس سے ظالموں کو خسارہ ہی بڑھتا ہے۔
(10)…یہ خاص طور پر اہلِ عرب کے لئے اور عمومی طور پر پوری امت کے لئے عظمت و نامْوَری کا سبب ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ‘‘ (زخرف:۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور(اے حبیب!) بیشک یہ قرآن تمہارے اور تمہاری قوم کیلئے عظمت کا سبب ہے۔
اور ارشاد فرماتاہے :
’’لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘(انبیاء: ۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل فرمائی جس میں تمہارا چرچا ہے۔ تو کیا تمہیں عقل نہیں ؟
(11)…یہ انتہائی اثر آفرین کتاب ہے جسے سن کر خوف و خَشِیَّت کے پیکر لوگوں کے دل دہل جاتے ہیں اور بدن پر بال کھڑے ہوجاتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ﳓ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ‘‘ (زمر: ۲۳)
الغرض یہ بڑی برکت والی کتاب ہے ا س لئے سب مسلمانوں کو چاہئے کہ ا س کی پیروی کریں اور پرہیز گار بن جائیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ‘‘(انعام: ۱۵۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے ، بڑی برکت والا ہے تو تم اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاربنو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
قرآنِ کریم کے فضائل:
احادیث میں قرآنِ مجید کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عنقریب ایک فتنہ برپا ہو گا۔ میں نے عرض کی :یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کی کتاب، جس میں تمہارے اگلوں اور پچھلوں کی خبریں ہیں اور تمہارے آپس کے فیصلے ہیں ،قرآن فیصلہ کن ہے اور یہ کوئی مذاق نہیں ہے ۔ جو ظالم اسے چھوڑ دے گا اللہ تعالیٰ اسے تباہ کردے گا اور جو اس کے غیر میں ہدایت ڈھونڈے گا اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دے گا، وہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی اور وہ حکمت والا ذکر ہے، وہ سیدھا راستہ ہے ، قرآن وہ ہے جس کی برکت سے خواہشات بگڑتی نہیں اور جس کے ساتھ دوسری زبانیں مل کر اسے مُشتبہ و مشکوک نہیں بناسکتیں ، جس سے علماء سیر نہیں ہوتے ،جو زیادہ دہرانے سے پرانا نہیں پڑتا ، جس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے ، قرآن ہی وہ ہے کہ جب اسے جِنّات نے سنا تو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو اچھائی کی رہبری کرتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے ،جو قرآن کا قائل ہو وہ سچا ہے، جس نے اس پر عمل کیا وہ ثواب پائے گا اور جو اس کے مطابق فیصلہ کرے گا وہ منصف ہوگا اور جو اس کی طرف بلائے گا وہ سیدھی راہ کی طرف بلائے گا۔(ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل القرآن، ۴ / ۴۱۴، الحدیث: ۲۹۱۵)
(2)…حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جس کو قرآن نے میرے ذکر اور مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھا، اُسے میں اُس سے بہتر دوں گا، جو مانگنے والوں کو دیتا ہوں اور کلامُ اللہ کی فضیلت دوسرے کلاموں پر ایسی ہی ہے، جیسی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی فضیلت اس کی مخلوق پر ہے۔(ترمذی، کتاب فضائل القرآن، ۲۵-باب، ۴ / ۴۲۵، الحدیث: ۲۹۳۵)
(3)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن قرآن کو ایک شخص کی صورت عطا کی جائے گی، پھر اسے ایک ایسے شخص کے پاس لایا جائے گا جو قرآن کا عالم ہونے کے باوجود اس کے حکم کی مخالفت کرتا رہا، قرآن اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہے گا: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، اس نے میرا علم حاصل کیا لیکن یہ بہت برا عالم ہے ،اس نے میری حدود کی خلاف ورزی کی، میرے فرائض کو ضائع کیا، میری نافرمانی میں لگا رہا اور میری اطاعت کو چھوڑ دیا۔
قرآن اس پر دلائل کے ساتھ الزامات لگاتا رہے گا یہاں تک کہ کہا جائے گا: اس کے بارے میں تیرا معاملہ تیرے سپرد ہے۔ قرآن ا س کا ہاتھ پکڑ کر لے جائے گا یہاں تک کہ اسے جہنم میں ایک چٹان پر اوندھے منہ گرا دے گا۔ پھر قرآن کو ایک ایسے نیک شخص کے پاس لایا جائے گا جو قرآن کاعالم تھا اور ا س کے حکم کی بجا آوری کرتا رہا ۔قرآن اس کے بارے میں کہے گا: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، س نے میرا علم حاصل کیا اور یہ بہترین عالم ہے، اس نے میری حدود کی حفاظت کی، میرے فرائض پر عمل کیا، میری نافرمانی سے بچتا رہا اور میری اطاعت کرتا رہا۔ قرآن دلائل کے ساتھ اس کی حمایت کرتا رہے گا یہاں تک کہ کہا جائے گا :اس کے بارے میں تیرا معاملہ تیرے سپرد ہے،قرآن اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے لے جائے گا اور اسے موٹے ریشم کا حُلہ پہنائے گا، اس کے سر پر بادشاہی کا تاج سجائے گا اور اسے (جنتی )شراب کے جام پلائے گا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب فضائل القرآن، من قال: یشفع القرآن لصاحبہ یوم القیامۃ، ۷ / ۱۶۹، الحدیث: ۱)قرآنِ حکیم کے مقاصد:
یہاں تک قرآنِ مجیدکا تعارف، اس کی عظمتیں اور فضائل بیان ہوئے ،اب قرآن پاک نازل کرنے کے 4 مقاصد ملاحظہ ہوں۔
(1)…پوری امت کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَا ‘‘ (انعام: ۹۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور یہ برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ،پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس لئے (اتری) تاکہ تم اس کے ذریعے مرکزی شہر اور اس کے اردگرد والوں کو ڈر سناؤ ۔
(2)…لوگوں کو کفر وجہالت کے اندھیروں سے ایمان کے نور کی طرف نکالنا۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
الٓرٰ- كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِ جَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ﳔ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ(ابراہیم: ۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:الٓرٰ،یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے اندھیروں سے اجالے کی طرف ،اس (اللہ) کے راستے کی طرف نکالو جو عزت والا سب خوبیوں والا ہے۔
(3)…لوگوں تک اللہ تعالیٰ کے احکامات پہنچانا اور ان کے اختلاف کا تَصْفِیَہ کرنا چنانچہاللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ‘‘(نحل: ۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا تاکہ تم لوگوں سے وہ بیان کردو جو اُن کی طرف نازل کیا گیا ہے اور تاکہ وہ غوروفکر کریں۔
اور ارشاد فرماتاہے :
’’وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْهِۙ-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ‘‘(نحل: ۶۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے تم پر یہ کتاب اس لئے نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں کیلئے وہ بات واضح کردو جس میں انہیں اختلاف ہے اوریہ کتاب ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔
(4)…اس کی آیتوں میں غوروفکر کر کے نصیحت حاصل کرنا۔چنانچہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘ (ص: ۲۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:(یہ قرآن) ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں اور عقلمند نصیحت حاصل کریں۔
قرآنِ پاک کے آداب :
(1)…قرآن مجید کی کتابت نہایت خوش خط اور واضح حرفوں میں کی جائے، کاغذ بھی بہت اچھا، روشنائی بھی خوب اچھی ہو کہ دیکھنے والے کو بھلا معلوم ہو۔ بعض مکتبوں والے نہایت معمولی کاغذ پر بہت خراب کتابت و روشنائی سے چھپواتے ہیں یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
(2)…فی زمانہ قرآنِ مجید کے تراجم بھی چھاپنے کا رواج ہے، اگر ترجمہ صحیح ہو تو قرآنِ مجید کے ساتھ چھاپنے میں حرج نہیں ، اس لیے کہ اس سے آیت کا ترجمہ جاننے میں سہولت ہوتی ہے مگر تنہا ترجمہ طبع نہ کیا جائے۔
(3)…قرآنِ مجید کا حجم چھوٹا کرنا مکروہ ہے۔ مثلاً آج کل بعض مکتبوں والے تعویذی قرآنِ مجید چھپواتے ہیں جن کا قلم اتنا باریک ہے کہ پڑھنے میں بھی نہیں آتا، بلکہ گلے میں لٹکانے کے لئے بھی قرآنِ پاک نہ چھپوایا جائے کہ اس کا حجم بھی بہت کم ہوتا ہے۔
(4)…قرآنِ مجید پرانا بوسیدہ ہوگیا اور اس قابل نہ رہا کہ اس میں تلاوت کی جائے اور یہ اندیشہ ہے کہ اس کے اَوراق مُنتَشر ہو کر ضائع ہوں گے، توکسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر احتیاط کی جگہ دفن کردیا جائے اور دفن کرنے میں اس کے لیے لَحد بنائی جائے، تاکہ اس پر مٹی نہ پڑے یا اس پر تختہ لگا کر چھت بنا کر مٹی ڈالیں کہ اس پر مٹی نہ پڑے۔ مصحف شریف بوسیدہ ہوجائے تو اس کو جلایا نہ جائے۔
(5)…قرآن مجید کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی طرف پیٹھ نہ کی جائے، نہ پاؤں پھیلائے جائیں ، نہ پاؤں کو اس سے اونچا کریں ، نہ یہ کہ خود اونچی جگہ پر ہواور قرآن مجید نیچے ہو۔
(6)…قرآن مجید کو جُزدان و غلاف میں رکھنا ادب ہے۔ صحابہ و تابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے زمانے سے اس پر مسلمانوں کا عمل ہے۔(بہار شریعت، حصہ شانزدہم،۳ / ۴۹۴-۴۹۶، ملخصاً)
قرآن شریف کی تلاوت کرنے اور پڑھانے کے فضائل:
قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے اور پڑھانے کے بہت سے فضائل ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ(۲۹) لِیُوَفِّیَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ‘‘ (فاطر: ۲۹،۳۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے پوشیدہ اوراعلانیہ کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو ہرگز تباہ نہیں ہوگی۔تاکہ اللہ انہیں ان کے ثواب بھرپور دے اور اپنے فضل سے اور زیادہ عطا کرے بیشک وہ بخشنے والا، قدر فرمانے والا ہے۔
اور احادیث میں ا س کے جو فضائل بیان ہوئے ان میں سے 6فضائل ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب خیرکم من تعلّم القرآن وعلّمہ، ۳ / ۴۱۰، الحدیث: ۵۰۲۷)
(2)…حضرت ابوامامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قرآن پڑھو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے اصحاب کے لیے شفیع ہو کر آئے گا۔(مسلم ، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳، الحدیث: ۲۵۲(۸۰۴))
(3)… حضرت عبیدہ مُلَیکی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اے قرآن والو! قرآن کو تکیہ نہ بناؤ یعنی سستی اور غفلت نہ برتو اور رات اور دن میں اس کی تلاوت کرو جیسا تلاوت کرنے کا حق ہے اور اس کو پھیلاؤ اور تَغَنّی کرو یعنی اچھی آواز سے پڑھو یا اس کا معاوضہ نہ لو اور جو کچھ اس میں ہے اس پر غور کرو تاکہ تمہیں فلاح ملے، اس کے ثواب میں جلدی نہ کرو کیونکہ اس کا ثواب بہت بڑا ہے۔(شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی ادمان تلاوتہ، ۲ / ۳۵۰-۳۵۱، الحدیث: ۲۰۰۷ و۲۰۰۹)
(4)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ ان دلوں میں بھی زنگ لگ جاتی ہے، جس طرح لوہے میں پانی لگنے سے زنگ لگتی ہے۔ عرض کی گئی، یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس کی صفائی کس چیز سے ہوگی؟ ارشاد فرمایا: ’’کثرت سے موت کو یادکرنے اور تلاوت قرآن کرنے سے۔(شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی ادمان تلاوتہ، ۲ / ۳۵۲، الحدیث: ۲۰۱۴)
(5)…حضرت ایفع بن عبد الکلاعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :کسی نے پوچھا، یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قرآن میں سب سے بڑی سورت کون سی ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ‘‘ ۔ اس نے عرض کی: قرآن میں سب سے بڑی آیت کون سی ہے؟ ارشاد فرمایا: آیۃ الکرسی ’’اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ‘‘ اس نے کہا، یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کون سی آیت (کا فائدہ و ثواب) آپ کو اور آپ کی امت کو پہنچنا محبوب ہے؟ ارشاد فرمایا ’’سورۂ بقرہ کے خاتمہ کی آیت کہ وہ رحمت ِالہٰی کے خزانہ سے عرشِ الہٰی کے نیچے سے ہے، اللہ تعالیٰ نے وہ آیت اس اُمت کو دی ،دنیا و آخرت کی کوئی خیر نہیں مگر یہ اس پر مشتمل ہے۔(دارمی، ومن کتاب فضائل القرآن، باب فضل اول سورۃ البقرۃ وآیۃ الکرسی، ۲ / ۵۴۰، الحدیث: ۳۳۸۰)
(6)… حضرت جندب بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قرآن کو اس وقت تک پڑھو، جب تک تمہارے دل کو الفت اور لگاؤ ہو اور جب دل اچاٹ ہوجائے، کھڑے ہو جاؤ۔ یعنی تلاوت بند کر دو۔ (بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب اقرؤا القرآن ما ائتلفت علیہ قلوبکم، ۳ / ۴۱۹، الحدیث: ۵۰۶۱)
قرآنِ مجید حفظ کرنے کے فضائل:
قرآنِ کریم کوحفظ کرنا فرض کفایہ ہے اور یہ صحابہ و تابعین اور علماءے دین متین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماَجْمَعِینْ کی سنت ہے اور اس کے فضائل حَصر و شمار سے باہر ہیں ،ترغیب کے لئے یہاں تین فضائل درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قرآن والا قیامت کے روز آئے گا اور قرآن عرض کرے گا: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، اسے خِلْعَت عطا فرما ،تو اس شخص کو کرامت کا تاج پہنایا جائے گا۔ قرآن پھر عرض کرے گا :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، اور زیادہ کر، تو اسے بزرگی کا حُلَّہ پہنایا جائے گا۔ پھر عرض کرے گا: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، اس سے راضی ہوجا، تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے گا۔ پھر اس شخص سے کہا جائے گا: پڑھتے رہو اور (درجات) چڑھتے جاؤ، اور ہرآیت پرایک نیکی زیادہ کی جائے گی۔ (ترمذی، کتاب فضائل القرآن، ۱۸-باب، ۴ / ۴۱۹، الحدیث: ۲۹۲۴)
(2)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’صاحب ِقرآن کو حکم ہوگا کہ پڑھتے رہو اور (درجات) چڑھتے جاؤ اور ٹھہرٹھہر کر پڑھو جیسے تم اسے دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے کہ تمہارا مقام اس آخری آیت کے نزدیک ہے جسے تم پڑھو گے ۔(ترمذی، کتاب فضائل القرآن، ۱۸-باب، ۴ / ۴۱۹، الحدیث: ۲۹۲۳)
اس حدیث ِپاک کاحاصل یہ ہے کہ ہرآیت پرایک ایک درجہ اس کا جنت میں بلند ہوتا جائے گا اور جس کے پاس جس قدرآیتیں ہوں گی اسی قدردرجے اسے ملیں گے۔(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ ’’حافظ قرآن اگر رات کو تلاوت کرے تو اس کی مثال اس توشہ دان کی ہے جس میں مشک بھرا ہوا ہو اور اس کی خوشبو تمام مکانوں میں مہکے اور جو رات کو سورہے اور قرآن اس کے سینے میں ہو تو اس کی مثال اس توشہ دان کی مانند ہے جس میں مشک ہے اور اس کا منہ باندھ دیاجائے۔ (ابن ماجہ، کتاب السنۃ، باب فی فضل من تعلّم القرآن وعلمہ، ۱ / ۱۴۱، الحدیث: ۲۱۷)
یہ قرآنِ مجید حفظ کرنے کے فضائل ہیں لہٰذا جس مسلمان سے بن پڑے وہ قرآن مجید حفظ کر کے ان فضائل کو حاصل کرنے کی کوشش کرے اور جنہوں نے قرآن مجید حفظ کر لیا ہے انہیں چاہئے کہ اسے روزانہ یاد کرتے رہیں تاکہ حفظ بھول نہ جائے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک حدیث پاک کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’یعنی جس طرح بندھے ہوئے اونٹ چھوٹنا چاہتے ہیں اور اگر ان کی محافظت واحتیاط نہ کی جائے تو رہا ہوجائیں اس سے زیادہ قرآن کی کیفیت ہے ،اگر اسے یاد نہ کرتے رہو گے تو وہ تمہارے سینوں سے نکل جائے گا ، پس تمہیں چاہئے کہ ہروقت اس کا خیال رکھو اور یاد کرتے رہو، اس دولت بے نہایت کوہاتھ سے نہ جانے دو۔
اسی طرح ایک اور حدیث پاک کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ یعنی اے قرآن والو!قرآن کو تکیہ نہ بنالو کہ پڑھ کے یاد کرکے رکھ چھوڑا ، پھر نگاہ اٹھا کر نہ دیکھا بلکہ اسے پڑھتے رہو دن رات کی گھڑیوں میں جیسے اس کے پڑھنے کاحق ہے اور اسے افشا کرو کہ خود پڑھو، لوگوں کو پڑھاؤ ، یاد کراؤ، اس کے پڑھنے، یاد کرنے کی ترغیب دونہ یہ کہ جو پڑھے اور خدا اسے حفظ کی توفیق دے اس کو روکو اور منع کرو۔
پھر فرماتے ہیں ’’اس سے زیادہ نادان کون ہے جسے خدا ایسی ہمت بخشے(کہ وہ قرآن پاک حفظ کر لے) اور وہ اسے اپنے ہاتھ سے کھودے ؟اگرقدر اس کی جانتا اور جو ثواب اور درجات اس پر مَوعود ہیں ان سے واقف ہوتا تو اسے جان و دل سے زیادہ عزیزرکھتا۔ (فتاویٰ رضویہ، ۲۳ / ۶۴۲-۶۴۵)
تلاوت ِقرآن کے آداب :
جب بھی قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو اس سے پہلے ان آداب اور شرعی احکام کا لحاظ رکھا جائے :
(1)…قرآن مجیددیکھ کر پڑھنا، زبانی پڑھنے سے افضل ہے کہ یہ پڑھنا بھی ہے اور دیکھنا اور ہاتھ سے اس کا چھونا بھی اور یہ سب چیزیں عبادت ہیں۔
(2)…مستحب یہ ہے کہ باوضو قبلہ رو اچھے کپڑے پہن کر تلاوت کرے اور تلاوت کے شروع میں ’’اَعُوْذُ‘‘ پڑھنا مستحب ہے اور سورت کی ابتداء میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔(بہار شریعت، حصہ سوم، ۱ / ۵۵۰)
(3)…قرآن مجید کو نہایت اچھی آواز سے پڑھنا چاہیے اور اگر (پڑھنے والے کی) آواز اچھی نہ ہو تو اچھی آواز بنانے کی کوشش کرے۔ لَحن کے ساتھ پڑھنا کہ حروف میں کمی بیشی ہوجائے جیسے گانے والے کیا کرتے ہیں یہ ناجائز ہے، بلکہ پڑھنے میں قواعد ِتجوید کی رعایت کرے۔ (بہار شریعت، حصہ شانزدہم، ۳ / ۴۹۶)
(4)…لیٹ کر قرآن مجید پڑھنے میں حرج نہیں ، جب کہ پاؤں سمٹے ہوں اور منہ کھلا ہو، یوہیں چلنے اور کام کرنے کی حالت میں بھی تلاوت جائز ہے، جبکہ دل نہ بٹے، ورنہ مکروہ ہے۔
(5)…جب قرآن مجیدختم ہو تو تین بار ’’قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ‘‘ پڑھنا بہتر ہے، اگرچہ تراویح میں ہو، البتہ اگر فرض نماز میں ختم کرے، تو ایک بار سے زیادہ نہ پڑھے۔(بہار شریعت، حصہ سوم، ۱ / ۵۵۱)
(6)…مسلمانوں میں یہ دستور ہے کہ قرآن مجید پڑھتے وقت اگر اٹھ کر کہیں جاتے ہیں تو بند کردیتے ہیں کھلا ہوا چھوڑ کر نہیں جاتے ،یہ ادب کی بات ہے، مگر بعض لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ اگر کھلا ہوا چھوڑ دیا جائے گاتو شیطان پڑھے گا، اس کی اصل نہیں ، ممکن ہے کہ بچوں کو اس ادب کی طرف توجہ دلانے کے لیے یہ بات بنائی گئی ہو۔ (بہار شریعت، حصہ شانزدہم، ۳ / ۴۹۶)
(7)…جب بلند آواز سے قرآن مجید پڑھا جائے تو تمام حاضرین پر سننا فرض ہے جب کہ وہ مجمع قرآن مجید سننے کی غرض سے حاضر ہو ورنہ ایک کا سننا کافی ہے اگرچہ باقی لوگ اپنے کام میں مصروف ہوں۔
(8)… مجمع میں سب لوگ بلند آواز سے پڑھیں یہ حرام ہے ۔ اگر چند شخص پڑھنے والے ہوں تو حکم ہے کہ آہستہ پڑھیں۔
(9)…بازاروں میں اور جہاں لوگ کام میں مشغول ہوں بلند آواز سے پڑھنا ناجائز ہے، لوگ اگر نہ سنیں گے تو گناہ پڑھنے والے پر ہے اگرچہ کام میں مشغول ہونے سے پہلے اس نے پڑھنا شروع کر دیا ہو اور اگر وہ جگہ کام کرنے کے لیے مقرر نہ ہو تو اگر پہلے پڑھنا اس نے شروع کیا اور لوگ نہیں سنتے تو لوگوں پر گناہ اور اگر کام شروع کرنے کے بعد اس نے پڑھنا شروع کیا، تو اس پر گناہ ہے۔
(10)…جو شخص غلط پڑھتا ہو تو سننے والے پر واجب ہے کہ بتا دے، بشرطیکہ بتانے کی وجہ سے کینہ و حسد پیدا نہ ہو۔ اسی طرح اگر کسی کا مُصْحف شریف اپنے پاس عاریت ہے، اگر اس میں کتابت کی غلطی دیکھے توبتا دینا واجب ہے۔(بہار شریعت، حصہ سوم، ۱ / ۵۵۲-۵۵۳)
دوسرا باب:
قرآنِ مجید کے جمع و ترتیب اور اس کی
تفسیر سے متعلق چند اہم باتیںجمعِ قرآن کا تاریخی پس منظر:
حقیقی طور پر قرآنِ عظیم کو جمع فرمانے والا اللہ تعالیٰ ہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗ‘‘ (قیامہ: ۱۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔
حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے مقدس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کے بیان کے مطابق قرآنِ مجید کو لوحِ محفوظ کی ترتیب کے مطابق صحابۂ کرام کو بیان فرمایا اور اس کی صورت یہ تھی کہ قرآنِ مجید23 سال کے عرصے میں حالات و واقعات کے حساب سے جدا جدا آیتیں ہو کر نازل ہوا، کسی سورت کی کچھ آیتیں نازل ہوتیں پھر دوسری سورت کی کچھ آیتیں اترتیں ، پھر پہلی سورت کی آیتیں نازل ہوتیں ، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہر بار ارشاد فرماتے کہ یہ آیات فلاں سورت کی ہیں لہٰذا اسے فلاں آیت کے بعد اورفلاں آیت سے پہلے رکھا جائے، چنانچہ وہ آیات اسی سورت میں اور اسی جگہ پر رکھ دی جاتیں۔ اسی ترتیب کے مطابق حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے سن کر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نماز میں اور تلاوت کے دوران قرآنِ مجید پڑھتے۔
اس دور میں سارا قرآنِ عظیم کتابی شکل میں ایک جگہ جمع نہیں تھا بلکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے سینوں میں محفوظ تھا اور مُتفرق کاغذوں ، پتھر کی تختیوں ، بکری دنبے کی کھالوں ، اونٹوں کے شانوں اور پسلیوں کی ہڈیوں وغیرہ پر لکھا ہوا تھا۔ جب حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانے میں نبوت کے جھوٹے دعوے دار ملعون مُسَیلمہ کذّاب سے جنگ ہوئی تو اس میں بہت سے حفاظ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم شہید ہو گئے ۔امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر گزارش کی کہ اس لڑائی میں بہت سے وہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم شہید ہو گئے ہیں جن کے سینوں میں قرآنِ عظیم تھا،اگر اسی طرح جہادوں میں حفاظ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم شہید ہوتے گئے اور قرآنِ عظیم کوایک جگہ جمع نہ کیا گیا تو قرآنِ مجید کا بہت سا حصہ مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتے رہنے کااندیشہ ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ اس بات کا حکم دیں کہ قرآنِ مجید کی سب سورتیں ایک جگہ جمع کر لی جائیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’جو کام حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے نہ کیا وہ ہم کیسے کریں؟حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: اگرچہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے یہ کام نہ کیا لیکن خدا کی قسم! یہ کام بھلائی کا ہے ۔ آخر کار حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ان کی رائے پسند آگئی اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت زید بن ثابت انصاری اور دیگر حفاظ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اس عظیم اور اہم ترین کام کا حکم دیا اور کچھ ہی عرصے میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سارا قرآنِ عظیم ایک جگہ جمع ہو گیا، ہر سورت ایک جدا صحیفے میں تھی اور وہ صحیفے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی حِینِ حیات آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس رہے ،ان کے بعد امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے بعد اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے پاس رہے۔
عرب میں چونکہ بہت سے قبیلے رہتے تھے اورہر قوم اور قبیلے کی زبان کے بعض الفاظ کاتلفظ اور لہجے مختلف تھے اور حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مقدس زمانے میں قرآنِ عظیم نیا نیا اترا تھا اور ہر قوم و قبیلہ کو اپنے مادری لہجے اور پرانی عادات کو یکدم بدلنا دشوار تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان پر یہ آسانی فرما دی گئی تھی کہ عرب میں رہنے والی ہر قوم اپنی طرز اور لہجے میں قرآنِ مجید کی قرا ء ت کرے اگرچہ قرآنِ مجید’’ لغت قریش‘‘ پر نازل ہوا تھا ۔زمانۂ نبوت کے بعد چند مختلف قوموں کے بعض افراد کے ذہنوں میں یہ بات جم گئی کہ جس لہجے اور لغت میں ہم پڑھتے ہیں اسی میں قرآنِ کریم نازل ہوا ہے،اس طرح کوئی کہنے لگا کہ قرآن اس لہجہ میں ہے اور کوئی کہنے لگا نہیں بلکہ دوسرے لہجے میں ہے یہاں تک کہ امیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانے میں یہ نوبت آگئی کہ لوگ اس معاملے میں ایک دوسرے سے لڑنے کے لئے تیار ہو گئے ۔جب امیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کواس بات کی خبر پہنچی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ابھی سے تم میں یہ اختلاف پیدا ہو گیا ہے تو آئندہ تم سے کیا امید ہے؟ چنانچہ امیرُ المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور دیگر اکابر صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے مشورے کے مطابق یہ طے پایا کہ اب ہر قوم کو اس کے لب و لہجہ کی اجازت میں مصلحت نہ رہی بلکہ اس سے فتنہ اٹھ رہا ہے لہٰذا پوری امت کو خاص ’’لغتِ قریش‘‘پر جس میں قرآن مجیدنازل ہوا ہے جمع کر دینا اور باقی لغتوں سے باز رکھنا چاہئے اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو صحیفے جمع فرمائے تھے وہ اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے منگوا کر ان کی نقلیں لی جائیں اور تمام سورتیں ایک مصحف میں جمع کر دی جائیں ،پھر وہ مَصاحف اسلامی شہروں میں بھیج دئیے جائیں اور سب کو حکم دیاجائے کہ وہ اسی لہجے کی پیروی کریں اور اس کے خلاف اپنے اپنے طرز ادا کے مطابق جو صحائف یا مصاحف بعض لوگوں نے لکھے ہیں فتنہ ختم کرنے کے لئے وہ تلف کر دئیے جائیں۔ چنانچہ اسی درست رائے کی بنا ء پرامیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے وہ صحائف منگوائے اور ان کی نقلیں تیار کر کے تمام شہروں میں بھیج دی گئیں۔اسی عظیم کام کی وجہ سے امیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ’’جامعُ القرآن ‘‘ کہا جاتا ہے۔ (فتاوی رضویہ،۲۶ / ۴۳۹-۴۵۲، ملخصاً)
تفسیرِ قرآن کی تاریخ:
تفسیرِقرآن کی تاریخ تقریباً چار ادوار پر مشتمل ہے جو کہ درج ذیل ہیں :
پہلا دور:
قرآنِ مجید روشن عربی زبان میں اور لغتِ عرب کے اسلوب اور بیان کے مطابق نازل ہوا، اس لئے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اس عظیم کلام کو سمجھ لیتے اور انہیں اس کے اغراض و مقاصد معلوم ہو جاتے لیکن چونکہ تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم علمی اور عقلی اعتبار سے ایک جیسے نہ تھے بلکہ علم و فہم کے لحاظ سے ان کے مَراتب میں فرق تھاا س لئے جب کسی صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو قرآنِ مجید کے کسی لفظ کے معنی سمجھنے میں دشواری ہوتی تو وہ بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر عرض کردیتے اور حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ا س کے معنی بیان فرما کر ان کی تَشَفِّی فرما دیتے، اسی طرح بعض اوقات سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ خود ہی قرآنی آیات کے معنی بیان فرما دیتے اور یہی وہ دور ہے جس میں قرآنِ مجید کی تفسیر بیان کرنے کی ابتداء ہوئی ۔
اس مرحلے میں سب سے پہلے قرآنِ مجید کی تفسیر اور اس کے معانی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے بیان فرمائے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام کی مراد کو سب سے زیادہ جانتا ہے اور اس کے بعد تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے سامنے قرآنِ عظیم کی تفسیر بیان فرمائی ۔اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اس منصب کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
’’وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ‘‘(نحل : ۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا تاکہ تم لوگوں سے وہ بیان کردو جو اُن کی طرف نازل کیا گیا ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘ (جمعہ:۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہی (اللہ)ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتاہے اور بیشک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔
دوسرا دور:
جب سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے وصال فرمایا توصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا مقدس زمانہ آیا اور یہ وہ مبارک ہستیاں ہیں جنہوں نے براہِ راست سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے قرآن عظیم کی تعلیم حاصل کی، ان میں سے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ایسے تھے جنہوں نے ا س کام کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی ۔انہوں نے اہلِ زبان ہونے اور نزولِ قرآن کے ماحول سے پوری طرح واقف ہونے کے باوجود اپنی زبان دانی پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے قرآن مجید سیکھا اور اس کے اَسرار و رُموز کی معلومات حاصل کیں۔ مشہور تابعی عالم حضرت ابوعبد الرحمن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے جو حضرات ہمیں قرآن عظیم کی تعلیم دیا کرتے تھے انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دس آیتیں سیکھتے اور اس وقت تک ان سے آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک ہم ان آیات کی تما م علمی اور عملی باتوں کا علم حاصل نہ کر لیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب فضائل القرآن، فی تعلیم القرآن کم آیۃ، ۷ / ۱۵۲، الحدیث: ۱)
اور حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب کوئی شخص (نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے) سورۂ بقرہ اور سورۂ اٰلِ عمران پڑھ لیتا تو وہ ہماری نظروں میں بہت قابلِ احترام ہوجاتا تھا۔ (شرح السنہ، کتاب الفضائل، باب علامات النبوۃ، ۷ / ۷۶، الحدیث: ۳۶۱۹)
اس دور میں جب لوگوں کو قرآنی آیات کے معنی سمجھنے میں مشکل ہوئی تو انہوں نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی بارگاہ میں حاضری دی اور چشمہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے فیضیاب ہونے والی ان ہستیوں سے مطالب ِ قرآنی سیکھے، البتہ یہاں ایک بات یاد رہے کہ نہ تو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے پورے قرآن مجید کی تفسیر بیان فرمائی اور نہ ہی صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے مکمل قرآن عظیم کی تفسیر ذکر کی بلکہ ان کی تفسیر کا مِحوَر کسی لفظ کی وضاحت، لغت سے اِستِشہاد، شانِ نزول کا بیان اور ناسخ ومنسوخ وغیرہ کا ذکر تھا اور ا س کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ خود اہل زبان تھے اور لغت ِعرب کے اسلوب و بیان سے پوری طرح واقف تھے ا س لئے انہیں پورے قرآن کی تفسیر کی حاجت نہ تھی۔
مفسرصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے چند مشہور مفسرین کے اسمائے گرامی یہ ہیں (1) حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ (2) حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم۔ (3) حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا۔ (4) حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔ (5) حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ (6) حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔ (7) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ۔ (8)حضرت ابوموسیٰ اشع ری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔ (9)حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔تیسرا دور:
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بعد تابعین کا زمانہ آیا ، ان کے پاس اگرچہ تفسیرِ قرآن کا ایک معتد بہاذخیرہ تھا لیکن وہ پورے قرآن عظیم کی تفسیر نہ تھی بلکہ بعض آیات کی تفسیر تھی۔ اس دور میں اسلام اطراف ِعالم میں پھیل چکا تھا اور جو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم موجود تھے وہ مختلف شہروں میں دینِ اسلام کی خدمت میں مصروف تھے، اسی دور میں مختلف فتنے اٹھے، لوگوں کی آراء میں اختلاف ہوا اور فتاویٰ کی کثرت ہوئی تو تابعین نے حدیث ،فقہ اور قرآن مجید کے علوم کی تدوین کی طرف توجہ فرمائی ۔تفسیرِ قرآن کے سلسلے میں انہوں نے حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے طریقے کی پیروی کی کہ سب سے پہلے قرآن مجید کی تفسیر قرآنی آیات سے بیان کی، پھر حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی احادیث سے بیان کی اور مزید یہ طریقہ اختیار کیا کہ جہاں انہیں قرآن مجید کی آیات اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی احادیث سے قرآنی آیات کی تفسیر نہ ملی وہاں قرآنِ مجید کی تفسیر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے آثار سے بیان کی اور جہاں انہیں تفسیرِ قرآن سے متعلق صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے آثار نہیں ملے وہاں انہوں اِجتہاد و اِستِنباط سے کام لیااوراسی دور میں کتب تفسیر کا ایک ذخیرہ معرض وجود میں آیا۔
مفسر تابعین:
تابعین میں سے چند مشہور مفسرین کے اسمائے گرامی یہ ہیں: (1) حضرت ابن المُسَیَّب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ (2) حضرت عروہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔(3) حضرت سالم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ (4) حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔ (5) حضرت سلیمان بن یسار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ (6) حضرت عطاء بن یسار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ (7) حضرت زید بن اسلم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔ (8)حضرت ابن شہاب زہری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ (9)حضرت حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ (10) حضرت مجاہد بن جُبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ (11)حضرت سعید بن جُبَیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ (12)حضرت علقمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔ (13)حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ (14) حضرت امام ابن سیرین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ (15) حضرت ابراہیم نخعی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ (16) حضرت امام شعبی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔
چوتھا دور:
تابعین کے بعد اموی اور عباسی خلفاء کے دور میں تفسیرِ قرآن پر بہت کام ہوا اور اس وقت سے لے کر اب تک مختلف زبانوں میں اور مختلف اقسام میں کثیر تفاسیر لکھی گئی ہیں ۔ان میں سے عربی زبان میں چند مشہورتفاسیر یہ ہیں :
نمبر شمار تفسیر کا نام مصنف کا نام 1 جَامِعُ الْبَیَان فِیْ تَأوِیْلِ الْقُرْآن
ابو جعفرمحمد بن جریر طبری رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 2 بَحْرُ الْعُلُوْم فقیہ ابولیث
نصر بن محمد سمرقندی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 3 تَفْسِیْرُ الْقُرْآنِ الْعَظِیْم
حافظ عبد الرحمن بن محمد،ابن ابی حاتم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 4 تَاْوِیْلَاتُ اَہْلِ السُّنَّۃ
ابو منصور محمد بن محمد ماتریدی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 5 اَلنُّکَتُ وَالْعُیُوْن
ابو الحسن علی بن محمدماوردی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 6 اَلْوَجِیْزْ فِیْ تَفْسِیْرِ الْکِتَابِ الْعَزِیْز
ابو الحسن علی بن احمدواحدی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 7 اَحْکَامُ الْقُرْآن
ابو بکر احمد بن علی جصاص رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 8 اَحْکَامُ الْقُرْآن
ابو بکر احمد بن حسین بیہقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 9 اَحْکَامُ الْقُرْآن
ابو بکر محمد بن عبداللّٰہ ،ابنِ عربی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 10 مَعَالِمُ التَّنْزِیْل فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُرْآن
ابو محمدحسین بن مسعود بغوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 11 زَادُ الْمَسِیْرفِیْ عِلْمِ التَّفْسِیْر
امام جمال الدین عبد الرحمن بن علی بغدادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 12 اَلتَّفْسِیْرُ الْکَبِیْر
ابو عبداللّٰہ محمد بن عمر رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 13 اَلْجَامِعُ لِأَحْکَامِ الْقُرْآن
ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 14 اَنْوَارُ التَّنْزِیْل وَاَسْرَارُ التَّأوِیْل
ناصرالدین ابو سعید عبداللّٰہ بن عمر بیضاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 15 مَدَارِکُ التَّنْزِیْل وَحَقَائِقُ التَّأوِیْل
ابو البرکات عبداللّٰہ بن احمدنسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 16 لُبَابُ التَّأوِیْل فِیْ مَعَانِیِ التَّنْزِیْل
علاء الدین علی بن محمدخازن رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 17 اَلْبَحْرُ الْمُحِیْط
ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 18 تَفْسِیْرُ اللُّبَاب فِیْ عُلُوْمِ الْکِتَاب
ابو حفص سراج الدین عمر بن علی دمشقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 19 تَفْسِیْرُ الْقُرْآنِ الْعَظِیْم
ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیردمشقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 20 اَلدُّرُ الْمَنْثُوْر فِی التَّأوِیْلِ بِالْمَأثُوْر
عبد الرحمن بن ابی بکر، جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 21 تَفْسِیْرُ الْجَلَالَیْن
جلال الدین محلی و جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 22 اِرْشَادُ الْعَقْلِ السَّلِیْم
ابو السعود محمد بن محمد عمادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 23 رُوْحُ الْبَیَان
شیخ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 24 رُوْحُ الْمَعَانِی
شہاب الدین سید محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 25 حَاشِیَۃُ الْجُمَل عَلَی الْجَلَالَیْن
شیخ سلیمان الجمل رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 26 حَاشِیَۃُ الصَّاوِی عَلَی الْجَلَالَیْن
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ تفسیر اور تاویل کی تعریف:
مفسرین نے تفسیراور تاویل کی مختلف تعریفات کی ہیں ،ان میں سے تفسیر کی ایک تعریف یہ ہے کہ قرآنِ مجید کے وہ احوال بیان کرنا جو عقل سے معلوم نہ ہو سکیں بلکہ ان میں نقل کی ضرورت ہو جیسے آیات کا شانِ نزول یا آیات کا ناسخ و منسوخ ہونا بیان کرنا۔ تاویلِ قرآن کی ایک تعریف یہ ہے کہ قرآنی آیات کے مضامین اور ان کی باریکیاں بیان کی جائیں اور صرفی و نحوی قواعد اور دیگر علوم کے ذریعے قرآنی آیات سے طرح طرح کے نکات نکالے جائیں۔
تفسیر اور تاویل کا شرعی حکم:
قرآنِ مجید کی تفسیر اپنی رائے سے بیان کرنا حرام ہے اور اپنے علم ومعرفت سے قرآن کی جائز تاویل بیان کرنا اہل علم کے لئے جائز اور باعث ثواب ہے۔ حضرت علامہ سلیمان جمل رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ شرائط کے ساتھ تاویل بِالرّائے یعنی رائے سے تاویل کے جواز جبکہ تفسیر بالرائے یعنی رائے سے تفسیر کے ناجائز ہونے میں راز یہ ہے کہ تفسیر تواللہ تعالیٰ پر گواہی دینا اور اس بات کایقین کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ کے یہ ہی معنی مراد لئے ہیں اور یہ بغیر بتائے جائز نہیں ، اسی لئے امام حاکم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فیصلہ کر دیا کہ صحابی کی تفسیر مرفوع حدیث کے حکم میں ہے اور تاویل چند احتمالات میں سے بعض کو یقین کے بغیر ترجیح دینے کا نام ہے(اس لئے یہ بغیر بتائے اہل علم کے لئے جائز ہے۔) (جمل، مقدمۃ، ۱ / ۳)
مفسر کے لئے ضروری علوم :
علماءِ کرام نے مفسر کے لئے جن علوم کو ضروری قرار دیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں :
(1)لغت کا علم۔(2)نحو کا علم۔ (3)صرف کا علم۔ (4)اشتقاق کا علم۔ (5 ،6 ،7)معانی، بیان اور بدیع کا علم۔(8)قراءَتوں کا علم۔(9)اصولِ دین کا علم۔(10)اصولِ فقہ کا علم۔(11)اسبابِ نزول کا علم۔(12) ناسخ اور منسوخ کا علم۔(13) مُجمَل اور مُبہَم کی تفسیر پر مبنی احادیث کا علم۔
اِن علوم کو سامنے رکھتے ہوئے اُن خواتین وحضرات کو اپنے طرزِ عمل پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنے کی حاجت ہے جو قرآن مجید کا صرف اردو ترجمہ اورتفاسیر کی اردو کتب پڑھ کر ترجمہ و تفسیر کرنا اور اس کے معانی و مطالب بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک اقدام ہے ۔اسے یو ں سمجھئے کہ اگر کوئی شخص از خودمیڈیکل کی کتابیں پڑھ کے اپنا کلینک کھول لے اور مریضوں کا علاج کرنا اور ان کے آپریشن کرنا شروع کردے تو اس کا کیا نتیجہ ہو گا؟ اسی طرح بلکہ ا س سے کہیں زیادہ نازک قرآنِ مجید کے ترجمہ وتفسیر کا معاملہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے کلام کا معنی و مفہوم اور اس کی مراد بیان کرنی ہوتی ہے اور یہ کام سیکھے بغیر کرنا اور علم کے بغیر کرنا جہنم میں پہنچا دے گا۔ اس لئے اگرکسی کو تفسیر بیان کرنے کاشوق ہے تواسے چاہیے کہ باقاعدہ علومِ دینیہ سیکھ کر اس کا اہل بنے ۔امام حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : عجمیوں کو اس بات نے ہلاک کر دیاکہ ان میں سے کوئی قرآنِ مجید کی آیت پڑھتا ہے اور وہ اس کے معانی سے جاہل ہو تا ہے تو وہ اپنی اس جہالت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھنا شروع کر دیتا ہے۔ (البحر المحیط، مقدمۃ المؤلف، الترغیب فی تفسیر القرآن، ۱ / ۱۱۸-۱۱۹)
رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں ’’جس شخص نے قرآنِ مجید میں بغیر علم کچھ کہا اسے اپنا ٹھکانہ دوزخ سمجھ لینا چاہئے۔(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ما جاء فی الذی یفسر القرآن برأیہ، ۴ / ۴۳۹، الحدیث: ۲۹۵۹)
تفسیر کے درجات:
تفسیرِ قرآن کے متعدد درجات ہیں ، مثلاً
(1)… تَفْسِیْرُ الْقُرْآنْ بِالْقُرْآنْ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی تفسیر قرآنی آیات سے کی جائے کیونکہ قرآنِ مجید میں بعض جگہ ایک حکم بیان کیا جاتا ہے اور دوسری جگہ اس حکم کی مدت کے اختتام کا ذکر ہوتا ہے، اسی طرح ایک مقام پر کوئی بات مُبہم ذکر کی جاتی ہے اور دوسری جگہ اس اِبہام کو دور کر دیا جاتا ہے ،اس لئے تفسیرِ قرآن کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی تفسیر خود ا س کی آیات سے کی جائے۔
(2) تَفْسِیْرُ الْقُرْآن بِالْحَدِیث۔ اس کا معنی یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی تفسیر تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی احادیث سے کی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کوقرآن مجید کے معانی، احکام اور تمام اسرار و رموز سکھا دئیے ہیں، اس لئے جب قرآنِ مجید کی تفسیر قرآنی آیت سے نہ ملے تو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی احادیث سے ان کی تفسیر بیان کی جائے۔
(3) تَفْسِیْرُ الْقُرْآنْ بِآثَارِ الصَّحَابَہ ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی تفسیر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اقوال سے کی جائے کیونکہ یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے براہِ راست حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے قرآنِ عظیم کی تعلیم حاصل کی اس لئے جب قرآنِ مجید کی تفسیر قرآنی آیات اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی احادیث سے نہ ملے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اقوال کی روشنی میں آیاتِ قرآنی کی تفسیر بیان کی جائے۔
(4) تَفْسِیْرُ الْقُرْآنْ بِآثَارِ التَّابِعِینْ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی تفسیر تابعین کے اقوال کی روشنی میں کی جائے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے قرآنِ مجید کی تفسیر سیکھی اس لئے جب قرآنی آیات، احادیث اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اقوال سے تفسیر نہ ملے تو تابعین کےاقوال سے تفسیر بیان کی جائے البتہ اس میں یہ لحاظ رہے کہ تابعی اگر کسی صحابی سے تفسیر نقل کر رہے ہیں تو ا س کا حکم وہی ہے جو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی بیان کردہ تفسیر کا ہے اور اگر تابعین کا اجماعی قول ہے تو وہ حجت ہے ورنہ نہیں۔
(5) تَفْسِیْرُ الْقُرْآنْ بِاللُّغَّۃِ الْعَرَبِیَّہ۔ قرآنِ مجید کی بعض آیات ایسی ہیں جن کے مفہوم میں کوئی الجھن اور پیچیدگی نہیں بلکہ ان کا مفہوم بالکل واضح ہے ،ایسی آیات کی تفسیر کے لئے عربی لغت اور عربی قواعد ہی کافی ہیں البتہ وہ آیات جن کا مفہوم واضح نہیں یا جن سے فقہی احکام اخذ کئے جا رہے ہوں تو ان آیات کی تفسیر ما قبل مذکور چاروں ماخذ سے کی جائے گی اور ان کے بعد لغت عرب کو بھی سامنے رکھا جائے گا کیونکہ عربی زبان میں اس قدر وسعت ہے کہ اس میں ایک لفظ کے بسا اوقات کئی کئی معنی ہوتے ہیں۔
قرآن مجید کا اصلی ماخذ:
قرآن مجید کا اصلی ماخذ اور سرچشمہ اللہ تعالیٰ کاعلم اور اس کی وحی ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِكِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ عَلٰى عِلْمٍ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ‘‘ (اعراف: ۵۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم ان کے پاس ایک کتاب لائے جسے ہم نے ایک عظیم علم کی بنا پربڑی تفصیل سے بیان کیا، (وہ) ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’ وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى‘‘ (نجم: ۳، ۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنی خواہش سے نہیں کہتے۔وہ وحی ہی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے ۔
اس لئے قرآنِ مجید کی وہ اصطلاحات جن کے معنی و مفہوم کو قرآن اور صاحب ِقرآن کی وضاحت کے بغیر سمجھنا ناممکن ہے جیسے ایمان ،اسلام ، نفاق،شرک، کفر، روح ، نفس، بَعث، صلوٰۃ، زکوٰۃ، حج، صوم،رِبا،صدقہ اور اِنفاق وغیرہ، ان سب کا معنی نہ توعربی لغت سے متعین کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی سمجھا جا سکتا ہے بلکہ ان کے معنی و مفہوم کے تعین کے لئے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی طرف رجوع کرنا بہر صورت لازمی ہے اور ان کا جو معنی و مفہوم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بیان فرمایا ہے اسے بلا تَرَدُّد تسلیم کرنا ضروری ہے اور جو لوگ قرآنِ مجید کی ان اصلاحات کے معاملے میں صراطِ مستقیم سے بہک گئےان کے بہکنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے وحیِ ربانی کی بجائے لغت ِعرب کوقرآنِ عظیم کا اصلی ماخذ قرار دیا اور لغت میں ان اصطلاحات کا جو معنی مذکور تھا وہی ان کے لئے متعین کر دیا۔
تفسیر کی ضرورت و اہمیت:
امام جلال الدین سیوطی شافعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جس زمانے میں قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا ا س وقت عربی کی فصاحت و بلاغت کے ماہرین موجود تھے، وہ اس کے ظاہر اور اس کے احکام کو توجانتے تھے لیکن اس کی باطنی باریکیاں ان پر بھی غورو فکر کرنے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے سوالات کرنے کے بعد ہی ظاہر ہوتی تھیں جیسے جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی ’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ‘‘ تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کی’’ہم میں سے ایسا کون ہے جو اپنی جان پر ظلم نہیں کرتا۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ا س کی تفسیر بیان کی کہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے اور اس پر اس آیت ’’اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ‘‘ سے استدلال فرمایا ۔اسی طرح جب حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے یہ ارشاد فرمایا ’’مَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابَ عُذِّبَ‘‘یعنی جس سے اعمال کے حساب کے معاملے میں جرح کی گئی تو وہ عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔ توحضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے ان آیات’’ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًاۙ(۸) وَّ یَنْقَلِبُ اِلٰۤى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا‘‘ کے بارے میں حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’یہ تو صرف اعمال کا پیش ہونا ہے۔ (یعنی یہ وہ مناقشہ نہیں ہے جو حدیث میں فرمایا گیا ہے ) (جب میدانِ فصاحت و بلاغت کے شہسواروں کو قرآن کے معانی سمجھنے کے لئے الفاظ ِقرآنی کی تفسیر کی حاجت ہوئی ) تو ہم تو اُس چیز کے زیادہ محتاج ہیں جس کی انہیں ضرورت پڑی بلکہ ہم تو سب لوگوں سے زیادہ اس چیز کے محتاج ہیں کیونکہ ہمیں بغیر سیکھے لغت کے اسرار و رموز اور اس کے مراتب معلوم نہیں ہو سکتے۔ (الاتقان فی علوم القرآن، النوع السابع والسبعون، فصل وامّا وجہ الحاجۃ الیہ۔۔۔ الخ،۲ / ۵۴۶-۵۴۷، ملخصاً)
قرآن فہمی بہت بڑی عبادت و سعادت ہے، لہٰذا تلاوت ِ قرآن کے ساتھ مستند تفاسیر کے ذریعے معانیِ قرآن بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت اِیاس بن معاویہ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :جو لوگ قرآنِ مجید پڑھتے ہیں اور وہ اس کی تفسیر نہیں جانتے ان کی مثال اُن لوگوں کی طرح ہے جن کے پاس رات کے وقت ان کے بادشاہ کا خط آیا اور ان کے پاس چراغ نہیں جس کی روشنی میں وہ اس خط کو پڑھ سکیں تو ان کے دل ڈر گئے اور انہیں معلوم نہیں کہ اس خط میں کیا لکھا ہے ؟ اور وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے اور ا س کی تفسیر جانتا ہے اس کی مثال اس قوم کی طرح ہے جن کے پاس قاصدچراغ لے کر آیا تو انہوں نے چراغ کی روشنی سے خط میں لکھا ہوا پڑھ لیا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ خط میں کیا لکھا ہے۔(تفسیر قرطبی، باب ما جاء فی فضل تفسیر القرآن واہلہ، ۱ / ۴۱، الجزء الاول، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو قرآنِ مجید سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمینتیسراباب:
’’صِرَاطُ الْجِنَان فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُرْآن‘‘
پر کام اور اس کی خصوصیات کا بیاندائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے سب مسلمانوں کی زبان عربی نہیں بلکہ مختلف علاقوں میں رہنے والے مسلمان اپنی اپنی علاقائی اور مادری زبانوں میں گفتگو کرتے ہیں اور قرآنِ مجید کی تفاسیر کا زیادہ تر ذخیرہ چونکہ عربی زبان میں ہے اس لئے اہلِ عرب کے علاوہ دیگر علاقوں میں مقیم مسلمانوں کی اکثریت عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان تفاسیر سے استفادہ نہیں کر سکتی، اسی ضرورت و حاجت کے پیش نظر معتبر علماء کرام نے اکابرین کی لکھی ہوئی عربی تفاسیر اور علومِ اسلامیہ پر مشتمل دیگر قابلِ اعتماد کتابوں سے کلام اخذ کر کے دیگر زبانوں میں تفاسیر کی کتابیں ترتیب دیں تاکہ وہاں کے مسلمان بھی قرآنِ مجید کی روشن تعلیمات اور اس کے احکامات سے آگاہی حاصل کریں اور انہی حالات کی وجہ سے پاک و ہند میں بھی فارسی اور اردو میں بیشتر علماء کرام نے تفاسیر لکھیں جن میں سے شاہ عبد العزیز محدّث دہلوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی فارسی زبان میں لکھی گئی تفسیر’’فتحُ العزیز‘‘ صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اردو زبان میں لکھی گئی مختصر تفسیر ’’خزائنُ العرفان‘‘ اور حکیمُ الاُمت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تفسیر ’’نورُ العرفان‘‘ سرِ فہرست ہیں ، اور اب اسی فہرست میں ایک خوبصورت اور اہم اضافہ ’’ صِرَاطُ الْجِنَان فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُرْآن ‘‘ کے نام سے آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کی چند خصوصیات درجِ ذیل ہیں :
(1)…قرآنِ مجید کی ہر آیت کے تحت دو ترجمے ذکر کئے گئے ہیں ، ایک اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا بے مثل اور شاہکار ترجمہ ’’کنز الایمان ‘‘ ہے اور دوسرا موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق آسان اردو میں کیا گیا ترجمہ ’’ کنز العرفان ‘‘ ہے جس میں زیادہ تر’’ کنز الایمان ‘‘ سے ہی استفادہ کیا گیا ہے ۔
(2)…قدیم و جدید تفاسیر اور دیگر علومِ اسلامیہ پر مشتمل معتبر اور قابلِ اعتماد علماء کرام بالخصوص اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی لکھی ہوئی کثیر کتابوں سے کلام اخذ کر کے سوائے چند ایک مقامات کے باحوالہ کلام لکھا گیا، نیز ان بزرگوں کے ذکر کردہ کلام کی روشنی میں بعض مقامات پراپنے انداز اور الفاظ میں کلام ذکر کیا گیا ہے۔
(3)…کتب ِ تفاسیر سے حوالہ جات ڈالنے میں ہر جگہ بعینہ عبارتوں کا ترجمہ کرنے کا التزام نہیں کیا گیا بلکہ بہت سی جگہوں پر خلاصہ کلام نقل کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہے، اور جہاں ایک بات کئی تفسیروں سے نقل کی گئی ہے وہاں اس تفسیر کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے زیادہ تر مواد لیا گیا ہو۔
(4)… صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا شاہکار تفسیری حاشیہ ’’خزائن العرفان‘‘ تقریباً پورا ہی اس تفسیر میں شامل کر دیا گیا ہے اور ا س کے مشکل الفاظ کو آسان الفاظ میں بدل کر کلام کی تخریج اور تحقیق بھی کر دی گئی ہے۔نیز مفتی احمد یارخان نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے حاشیہ’’ نور العرفان‘‘ سے بھی بہت زیادہ مدد لی گئی ہے اور اس کے بھی اکثروبیشتر حصے کو معمولی تبدیلیوں کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔
(5)… فی زمانہ عوامُ الناس بہت طویل اور علمی و فنی ابحاث پر مشتمل تفاسیر پڑھنے اور سمجھنے میں بہت دشواری محسوس کرتے ہیں ،اسی طرح مختصر حواشی سے بھی انہیں قرآنی آیات کا معنی و مفہوم سمجھنے میں بڑی دقت کا سامنا ہوتا ہے،ان کی اس پریشانی کو سامنے رکھتے ہوئے ’’ صِرَاطُ الْجِنَان فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُرْآن ‘‘ میں اس بات کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے کہ تفسیر نہ زیادہ طویل ہو اور نہ ہی بہت مختصربلکہ متوسط اور جامع ہو ،نیز اس میں ان علمی اور فنی ابحاث سے گریز کیا گیا ہے جنہیں جاننے میں عوام الناس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں البتہ جہاں آیت کی تفہیم کے لئے جس علمی اور فنی بحث کی ضرورت تھی وہاں اسے حتّی الامکان آسان انداز میں ذکر کرنے کی کوشش ضرورکی گئی ہے ۔
(6)…اردو کی مشکل تَراکیب کی بجائے آسان الفاظ و تراکیب کاا ستعمال کیا گیا ہے تاکہ کم پڑھے لکھے حضرات بھی اس سے آسانی کے ساتھ استفادہ کر سکیں اور قرآنِ مجید کی تعلیمات اور احکام کوسمجھ کر ان پر عمل کر سکیں۔
(7)…قرآنِ مجید میں جہاں شرعی احکام و مسائل کا بیان ہوا وہاں تفسیر میں ضروری مسائل آسان انداز میں بیان کئے گئے ،جہاں اعمال کی اصلاح کا ذکر ہوا وہاں اصلاحِ اعمال کی ترغیب وترہیب ،جہاں معاشرتی برائیوں کا تذکرہ ہوا وہاں ان سے متعلق اور جہاں جہنم کے عذابات اور جنت کے انعامات کا ذکر ہوا وہاں عذابِ جہنم سے بچنے اور جنتی نعمتوں کے حصول کی ترغیب پر مشتمل مضامین لکھے گئے ہیں ، نیزباطنی امراض سے متعلق بھی قدرے تفصیل سے کلام کیا گیاہے۔
(8)…اسلامی حسنِ معاشرت سے متعلق امور جیسے والدین ،رشتہ داروں ، یتیموں اور پڑوسیوں وغیرہ کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی کرنے سے متعلق بھی بہت سا اصلاحی مواد شامل کیا گیا ہے۔
(9)… مختلف مقامات پر عقائد ِاہلسنّت اور معمولات ِاہلسنّت کی دلائل کے ساتھ وضاحت کی گئی ہے اور موقع و مقام کی مناسبت سے معاشرے میں رائج برائیوں کی قرآن و حدیث کی روشنی میں مذمت بیان کی گئی ہے۔
(10)…حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مبارکہ خاص طور پر بیان کی گئی اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی سیرت و واقعات بھی ذکر کئے گئے ہیں۔
(11)…آیات سے حاصل ہونے والے نکات اور معلوم ہونے والی اہم اور ضروری باتوں کو ذکر کیا گیا ہے ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس تفسیر کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے اور اسے تمام مسلمانوں کے لئے دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے نفع بخش بنائے اور اسے مصنف و معاونین کے لئے ذریعہ نجات بنائے۔اٰمین