سورۂ فَلق
کا تعارف
مقامِ نزول:
ایک قول یہ ہے کہ سورۂ فَلق مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اور ایک قول یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔ پہلا قول زیادہ صحیح ہے( کیونکہ اس کے شانِ نزول سے اسی کی تائید ہوتی ہے)۔ (خازن، تفسیر سورۃ الفلق، ۴ / ۴۲۸)
رکوع اور آیات
کی تعداد:
اس سورت میں 1 رکوع اور 5آیتیں ہیں ۔
’’فلق ‘‘نام رکھنے کی وجہ
:
فلق کے کئی معنی ہیں اور یہاں
اس سے مراد ’’صبح‘‘ ہے،اور چونکہ اس سورت
کی پہلی آیت میں یہ لفظ موجود ہے اس
مناسبت سے اسے ’’سورۂ فلق ‘‘ کہتے ہیں ۔
سورۂ فَلق
اور سورۂ والنّاس کے فضائل:
اَحادیث میں سورۂ
فَلق اور سورۂ والنّاس کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 3فضائل درج ذیل ہیں ۔
(1) …حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا ’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آج رات مجھ پر ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں جن کی مثل نہیں دیکھی گئی ،(وہ آیتیں )قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ
الْفَلَقِ (سورت کے آخر تک) اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ(سورت کے
آخر تک )ہیں ۔( مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین
وقصرہا، باب فضل قراء ۃ المعوّذتین، ص۴۰۶، الحدیث: ۲۶۴(۸۱۴))
(2) …حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ جِنّات سے اور انسانوں کی
نظر سے پناہ مانگا کرتے تھے یہاں تک کہ
سورۂ فَلق اور سورۂ وَالنَّاس نازل ہوئیں ،پھر آپ نے ان
سورتوں کو پڑھنا شروع کر دیا اور ان کے علاوہ(دیگر
وظائف) کو چھوڑ دیا۔( ترمذی، کتاب الطّب، باب ماجاء فی الرّقیۃ بالمعوّذتین، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۲۰۶۵)
(3) …حضرت عابس جُہنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا: ’’میں تمہیں وہ کلمات نہ بتاؤں جو (شریر جِنّا ت اور نظر ِبد سے) اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے میں سب سے
افضل ہیں ؟ انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، کیوں نہیں (آپ ضرور بتائیے۔)ارشاد فرمایا: ’’وہ کلمات یہ دونوں سورتیں ہیں :(1) قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ
الْفَلَقِ۔(2)قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ
النَّاسِ۔( سنن نسائی، کتاب الاستعاذۃ، ۱-باب، ص۸۶۲، الحدیث: ۵۴۴۲)
سورۂ فَلق
اور سورۃُ النّاس کاشانِ نزول :
یہ سورت اور سورۃُ النّاس جو اس کے بعد ہے اس وقت نازل ہوئی جب کہ
لبیدبن اعصم یہودی اور اس کی بیٹیوں نے حضورپُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر جادو کیا اور حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے جسمِ مبارک اور ظاہری اَعضا پر اس کا اثر ہوا، البتہ دل، عقل اور
اعتقاد پر کچھ اثر نہ ہوا۔ چند دنوں بعد
حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آئے اور انہوں نے عرض کی: ایک یہودی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر جادو
کیا ہے اور جادو کا جو کچھ سامان ہے وہ فلاں کنوئیں میں ایک
پتھر کے نیچے دبایا ہوا ہے ۔رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ
الْکَرِیْم کو بھیجا اورانہوں نے کنوئیں کا پانی نکالنے کے بعد پتھر اٹھایا تواس کے نیچے
سے کھجور کے درخت کے نرم حصے سے بنی
ہوئی تھیلی برآمد ہوئی جس میں حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے وہ
موئے مبارک جو کنگھی سے برآمد ہوئے
تھے اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی
کنگھی کے چند دندانے اور ایک ڈورا یا کمان کا چِلّہ جس میں گیارہ گرہیں لگی تھیں اور ایک موم کا پُتلہ تھا جس میں گیارہ سوئیاں چبھی ہوئی تھیں ۔ یہ سب سامان پتھرکے نیچے سے نکالا اور حضورپُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت
میں حاضر کیا گیا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں نازل فرمائیں ، ان دونوں سورتوں میں گیارہ آیتیں ہیں ، پانچ سورئہ فلق میں اور چھ سورۂ ناس میں ۔
ہر ایک آیت کے پڑھنے کے ساتھ ایک ایک گرہ کھلتی جاتی تھی یہاں تک کہ سب گرہیں کھل گئیں اور حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ بالکل تندرست ہوگئے۔ (خازن، الفلق، تحت
الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۲۸-۴۲۹، ملخصاً)
تعویذات اور
عملیات سے متعلق ایک شرعی مسئلہ:
یہاں ایک مسئلہ ذہن نشین
رکھیں کہ وہ تعویذ اور عملیات جن میں کفر یا شرک کا کوئی کلمہ نہ ہو جائز ہیں ، خاص
کر وہ عمل جو آیاتِ قرآنیہ سے کئے جائیں یااَحادیث میں وارد ہوئے ہوں ۔( خازن، الفلق، تحت
الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۲۹)حدیث شریف میں ہے کہ حضرت اَسماء بنت عُمیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض
کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، جعفر کے بچوں کو جلد جلد نظر ہوتی ہے کیا
مجھے اجازت ہے کہ ان کے لئے عمل کروں ؟حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اجازت دی۔( ترمذی، کتاب الطّب، باب ما جاء فی الرّقیۃ من العین، ۴ / ۱۳، الحدیث: ۲۰۶۶)
سورۂ فَلق
اور سورۃُ النّاس کے شانِ نزول سے حاصل ہونے والی معلومات :
اس سورت اور اس کے شانِ نزول سے 4 باتیں معلوم ہوئیں ،
(1) … جادو اور اس کی تاثیر حق ہے۔
(2) … نبی کے جسم پر جادو کا اثر ہو سکتا ہے، جیسے
تلوار، تیراور نیزہ کا، یہ اثرشانِ نبوت کے خلاف نہیں ہاں ایسا اثر نہیں ہوسکتا کہ جس سے نبوت کے متعلقہ اُمور میں خَلل آئے۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقابلے
میں جادوگر بالآخر اس لئے فیل ہوئے
کیونکہ وہاں جادو سے معجزے کا مقابلہ تھا
ورنہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خیال پر
بھی اس جادو نے اثر کیاکہ ان کو خیال ہو ا کہ یہ لاٹھیاں رسیاں چل رہی ہیں جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے:
’’یُخَیَّلُ اِلَیْهِ مِنْ
سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰى‘‘(طہ:۶۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: ان کے جادو کے زور سے موسیٰ کےخیال میں یوں لگیں
کہ وہ دوڑ رہی ہیں ۔
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے خیال پر
بھی یہی اثر ہواتھا۔
(3) … جادو کو دور کرنے میں سورۂ فَلق اور سورۂ ناس میں خصوصی تاثیر ہے۔
(4) … جادو ٹونہ اور عملیات و اثرات اور بیماریوں کو ختم
کرنے کیلئے قرآنِ پاک کی سورتوں اور
آیتوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے جیساکہ
اوپر بیان ہوا اور خود بخاری شریف میں سورۂ فاتحہ کو اس مقصد کیلئے استعمال کرنے کا
بیان موجود ہے۔( صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فاتحۃ الکتاب، ۳ / ۴۰۴، الحدیث: ۵۰۰۷)