banner image

Home ur Surah Abasa ayat 3 Translation Tafsir

عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤى(1)اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰىﭤ(2)وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّهٗ یَزَّ كّٰۤىۙ (3)اَوْ یَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰىﭤ(4)اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰى(5)فَاَنْتَ لَهٗ تَصَدّٰىﭤ(6)وَ مَا عَلَیْكَ اَلَّا یَزَّ كّٰىﭤ(7)وَ اَمَّا مَنْ جَآءَكَ یَسْعٰى(8)وَ هُوَ یَخْشٰى(9)فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَهّٰى(10)

ترجمہ: کنزالایمان تیوری چڑھائی اور منہ پھیرا اس پر کہ اس کے پاس وہ نابینا حاضر ہوا اور تمہیں کیا معلوم شاید وہ ستھرا ہو یا نصیحت لے تو اسے نصیحت فائدہ دے وہ جو بے پرواہ بنتا ہے تم اس کے تو پیچھے پڑتے ہو اور تمہارا کچھ زِیاں نہیں اس میں کہ وہ ستھرا نہ ہو اور وہ جو تمہارے حضور ملکتا آیا اور وہ ڈر رہا ہے تو اسے چھوڑ کر اور طرف مشغول ہوتے ہو۔ ترجمہ: کنزالعرفان تیوری چڑھائی اور منہ پھیرا۔ اس بات پر کہ ان کے پاس نابینا حاضر ہوا۔ اور تمہیں کیا معلوم شاید وہ پاکیزہ ہوجائے۔ یا نصیحت حاصل کرے تو نصیحت اسے فائدہ دے۔ بہرحال وہ شخص جو بے پروا بنا۔ توتم اس کے پیچھے پڑتے ہو۔ اور تم پر اس بات کا کوئی الزام نہیں کہ وہ (کافر) پاکیزہ نہ ہو۔ اوررہا وہ جو تمہارے حضور دوڑتا ہوا آیا۔ اور وہ ڈررہا ہے ۔ تو تم اسے چھوڑ کر (دوسری طرف) مشغول ہوتے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{عَبَسَ وَ تَوَلّٰى: تیوری چڑھائی اور منہ پھیرا۔} اس سورت کی ابتدائی دس آیات میں  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی عظمت اور اپنی بار گاہ میں  ان کی محبوبیّت کے ایک پہلو کو بیان فرمایا ہے کہ جب نبی کریم صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنے اجتہاد سے ایک کام کو زیادہ اہم سمجھتے ہوئے اسے دوسرے کام پر فَوقِیَّت دی اور دوسرے کام کی طرف توجہ نہ فرمائی تواس پر اللّٰہ تعالیٰ نے لطیف انداز میں  اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی تربیت فرمائی۔ ان آیات کا شانِ نزول یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ایک مرتبہ قریش کے سرداروں  عتبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام ، عبا س بن عبدالمطلب ، اُبی بن خلف اور اُمیہ بن خلف کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے، اسی دوران حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے جو کہ نابینا تھے اوراُنہوں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو بار بار ندا کرکے عرض کی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جو آپ کو سکھایا ہے وہ مجھے تعلیم فرمائیے۔ حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ نہ سمجھا کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ دوسروں  سے گفتگو فرمارہے ہیں  اور میرے ندا کرنے سے قطعِ کلامی ہوگی۔ یہ بات حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو گراں  گزری اور ناگواری کے آثار چہرۂ اَقدس پر نمایاں ہوئے یہاں  تک کہ حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اپنی دولت سرائے اقدس کی طرف واپس تشریف لے آئے ۔اس پر یہ آیات نازل ہوئیں  اور اس آیت اور ا س کے بعد والی 9آیات میں فرمایا گیا کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ  سَلَّمَ نے اس بات پر اپنے ماتھے پر شکن چڑھائی اور منہ پھیرا کہ ان کے پاس ایک نابینا شخص حاضر ہوا اور اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ کو کیا معلوم کہ شاید وہ آپ کا ارشاد سن کر پاکیزہ ہوجائے یاآپ کے کلام سے نصیحت حاصل کرے تو وہ نصیحت اسے فائدہ دے۔جبکہ دوسراوہ شخص جو اپنے مال کے تکبر میں  مبتلا ہونے کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ سے اورایمان لانے سے بے پرواہوا تو آپ اس کے پیچھے پڑتے ہیں  اور اس کے ایمان لانے کی امیدمیں  اس پر کوشش کرتے ہیں  (تاکہ دین ِاسلام کی قوت میں  اضافہ ہو اور ان کے پیچھے چلنے والے اور لوگ بھی ایمان لے آئیں ) حالانکہ آپ پر اس بات کا کوئی اِلزام نہیں  کہ وہ کافر ایمان لا کر اور ہدایت پا کر پاکیزہ نہ ہو کیونکہ آپ کے ذمہ دعوت دینا اور اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادینا ہے اور وہ ابنِ اُمِّ مکتوم ،جو بھلائی کی طلب میں  تمہارے حضور ناز سے دوڑتا ہوا آیا اور وہ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتاہے تو آپ اسے چھوڑ کر دوسری طرف مشغول ہوتے ہیں ، ایسا کرنا آپ کی شان کے لائق ہرگز نہیں۔( خازن،عبس،تحت الآیۃ:۱-۱۰،۴ / ۳۵۳، مدارک، عبس، تحت الآیۃ: ۱-۱۰، ص۱۳۲۱، جلالین، عبس، تحت الآیۃ: ۱-۱۰، ص۴۹۰، ملتقطاً)

             یہاں  یہ بات ذہن نشین رہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے سامنے دو طرح کے لوگ تھے ، ایک مالدارکفار جن کے اسلام لانے سے خود اُن کفار کو اور اسلام و مسلمانوں  کو فائدہ تھا جبکہ دوسری طرف نابینا مسلمان صحابی تھا۔ دونوں  کے اعتبار سے یہاں  تین پہلو تھے ،

          پہلا یہ کہ مالدارکفار ، خصوصاً سردار ہر وقت تبلیغ کے لئے مُیَسَّر نہیں  ہوتے تھے اور اُس خاص وقت کے علاوہ دوسرے وقت ان کا ایمان کی بات سننے کیلئے آنا یقینی نہیں  تھاجبکہ صحابی ہر وقت حاضر رہتے اور اُس خاص وقت کے علاوہ دوسرے وقت میں  ان کا آنا یقینی تھا۔

          دوسر ا پہلو یہ تھا کہ کفار سے بات اِیمانیات کے متعلق ہورہی تھی جبکہ صحابی سے بات ایمان کی تکمیل یا عمل وغیرہ کے متعلق ہونی تھی اور ایمان کا معاملہ اس کی تکمیل اور اعمال سے زیادہ اہم ہے ۔

           تیسرا پہلو یہ تھا کہ کفار کا ایمان لانا یقینی نہیں  تھا جبکہ صحابی کا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے فرمان پر عمل نسبتاً یقینی تھا۔ ان تینوں  باتوں  کو سامنے رکھتے ہوئے اب آیت اور اس واقعے کا مفہوم سمجھیں  کہ پہلے دو پہلوؤں  کا تقاضا یہ تھا کہ کفار سے بات کرنے کو ترجیح دی جائے جبکہ تیسرے پہلو کا تقاضا تھا کہ صحابی سے بات کرنے کو ترجیح دی جائے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے پہلے دو پہلوؤں  کو کثرتِ فوائد کے پیشِ نظر اپنے اِجتہاد سے ترجیح دی جبکہ حکمِ الٰہی میں  بتادیا گیا کہ تیسرا پہلو جو یقینی تھا اسے پہلے والے دو غیر یقینی پہلوؤں  پر ترجیح دی جانی چاہیے تھی چنانچہ اسی کے حوالے سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی تربیت فرمادی گئی اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو آپ کی تمام جہانوں  کے لئے رحمت ہونے والی شان کے مطابق انداز اپنانے کا بھی فرمادیا گیا کہ اس طرح کے معاملات میں  چہرے پر تیوری نہ چڑھائی جائے۔

{اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰى: اس بات پر کہ ان کے پاس نابینا حاضر ہوا۔} حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو نابینا فرما کر ان کی تحقیر نہیں  کی گئی بلکہ ا س میں  ان کی معذوری کی طرف اشارہ ہے کہ ان سے قطعِ کلامی بینائی نہ ہونے کی وجہ سے واقع ہوئی اور ا س وجہ سے وہ مزید نرمی کئے جانے کے مستحق تھے ۔

حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شان:

             ان آیات کے نازل ہونے کے بعد تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بہت عزت فرماتے تھے اور خود ان سے ان کی حاجتیں  دریافت فرماتے۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غزوات کے دوران دو مرتبہ حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو مدینہ منورہ میں  اپنا نائب بنایا اور حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنگ ِقادسیہ میں  شہید ہوئے۔( تفسیرکبیر، عبس، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱ / ۵۲، روح المعانی، عبس، تحت الآیۃ: ۱، ۱۵ / ۳۳۸، ملتقطاً)