Home ≫ ur ≫ Surah Ad Dukhan ≫ ayat 11 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ(10)یَّغْشَى النَّاسَؕ-هٰذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ(11)
تفسیر: صراط الجنان
{فَارْتَقِبْ: تو تم منتظر رہو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے اسلام کی دعوت ملنے پر کفارِ قریش آپ کو جھٹلاتے ،آپ کی نافرمانی کرتے اور آپ کا مذاق اڑاتے،اس بناپر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے خلاف دعا کی کہ ’’یارب! انہیں ایسے سات سالہ قحط کی مصیبت میں مبتلا کر جیسے سات سال کا قحط حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں بھیجا تھا۔ ‘‘یہ دعا قبول ہوئی اورسرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا گیا’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ ان کافروں کیلئے اس دن کے منتظر رہو جب آسمان ایک ظاہر دھواں لائے گا جولوگوں کو ڈھانپ لے گا ۔‘‘ چنانچہ قریش پر قحط سالی آئی اور یہاں تک اس کی شدت ہوئی کہ وہ لوگ مردار کھا گئے اور بھوک سے اس حال کو پہنچ گئے کہ جب اوپر کو نظر اٹھاتے اورآسمان کی طرف دیکھتے تو ان کو دھواں ہی دھواں معلوم ہوتا ،یعنی ایک توکمزوری کی وجہ سے انہیں نگاہوں کے سامنے اندھیرا محسوس ہوتا اور دوسرا قحط سے زمین خشک ہوگئی ،اس سے خاک اڑنے لگی اورغبار نے ہوا کو ایسا گدلا کردیاکہ انہیں آسمان دھوئیں کی طرح محسوس ہوتا۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں دھوئیں سے مراد وہ دھواں ہے جو قیامت کی علامات میں سے ہے اور قیامت کے قریب ظاہر ہوگا ،اس سے مشرق و مغرب بھر جائیں گے، چالیس دن اور رات رہے گا،اس سے مومن کی حالت تو ایسے ہوجائے گی جیسے زکام ہوجائے جبکہ کافر مدہوش ہوجائیں گے، ان کے نتھنوں ، کانوں اور بدن کے سوراخوں سے دھواں نکلے گا۔( خازن، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۴ / ۱۱۳، جمل، الدخان، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۷ / ۱۱۸-۱۱۹، ملتقطاً)