banner image

Home ur Surah Al Ahqaf ayat 27 Translation Tafsir

اَلْاَحْقَاف

Al Ahqaf

HR Background

وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَ صَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(27)فَلَوْ لَا نَصَرَهُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قُرْبَانًا اٰلِهَةًؕ-بَلْ ضَلُّوْا عَنْهُمْۚ-وَ ذٰلِكَ اِفْكُهُمْ وَ مَا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(28)

ترجمہ: کنزالایمان اور بیشک ہم نے ہلاک کردیں تمہارے آس پاس کی بستیاں اور طرح طرح کی نشانیاں لائے کہ وہ بازآئیں ۔ تو کیوں نہ مدد کی ان کی جن کو انہوں نے اللہ کے سوا قرب حاصل کرنے کو خدا ٹھہرا رکھا تھا بلکہ وہ اُن سے گم گئے اور یہ اُن کا بہتان و افترا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور(اے اہلِ مکہ!) بیشک ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں کو ہلاک کردیا اور بار بار نشانیاں لائے تاکہ وہ باز آجائیں ۔ تو جن بتوں کو قرب حاصل کرنے کیلئے اللہ کے سوامعبود بنارکھا تھا انہوں نے ان کافروں کی مدد کیوں نہیں کی بلکہ وہ ان سے گم گئے اور یہ ان کا بہتان تھا اور جووہ گھڑتے رہتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى: اور بیشک ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں  کو ہلاک کردیا۔} یہاں  سے قومِ عاد اور ثمود وغیرہ کی اجڑی ہوئی بستیوں  ، ان کی تباہی اور ان میں  رہنے والوں  کی ہلاکت کے سبب کی طرف اشارہ کر کے کفارِ مکہ کو تنبیہ کی جا رہی ہے ،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ اے اہلِ مکہ! تمہارے آس پاس عاد اور ثمود وغیرہ کی اجڑی ہوئی بستیاں  موجود ہیں  اور جب تم یمن اور شام کا سفر کرتے ہوتو راستے میں  ان تباہ شدہ بستیوں  کو دیکھتے ہو،کبھی تم نے ان کی تباہی وبربادی کاسبب تلاش کیاہے کہ آخرکس وجہ سے وہ بستیاں  تباہ ہو گئیں  اور ان میں  بسنے والے لوگ تم سے زیادہ طاقتور اورمالدارہونے کے باوجود ہلاک ہو کر عبرت کا نشان بن گئے؟ تو سنو! ان کی تباہی وبربادی اور ہلاکت کی وجہ یہ تھی کہ جب وہاں  کے لوگوں  کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر ایمان لانے، صرف اسی کی عبادت کرنے اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی تو ان لوگوں  نے اس دعوت کو قبول نہ کیا اور ان کی ہٹ دھرمی کا حال یہ تھا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیّت اور اپنی صداقت پر دلالت کرنے والی نشانیاں  باربار پیش کیں ، سابقہ امتوں  کی بربادی کے عبرت ناک واقعات ان کے سامنے بیان کئے تاکہ وہ اپنے کفر اور مَعصِیَت سے باز آ جائیں ، لیکن وہ کسی صورت ا س سے باز نہ آئے اور کفر و مَعصِیَت ہی کو اختیار کیا تو اس کی وجہ سے ان کا انجام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں  اپنے عذاب سے ہلاک کر دیا،تواب تم بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جن بتوں  کو ان کافروں  نے اپنا معبود بنا رکھا تھا اور ان کے بارے میں  یہ کہتے تھے کہ ان بتوں  کو پوجنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے،اُن بتوں  نے اِن کافروں  کی مدد کیوں  نہیں  کی اور انہیں  اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کیوں  نہیں  بچایا؟ بلکہ اس وقت تو یوں  ہوا کہ ان بتوں  کا عاجز اور بے بس ہونا پوری طرح ظاہر ہو گیا اور عذاب نازل ہوتے وقت وہ ان کے کچھ کام نہ آئے اور یاد رکھو کہ وہ جو بتوں  کو اپنامعبود کہتے اور بت پرستی کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ٹھہراتے تھے ،یہ ان کا بہتان اور اِفتراء تھا، حقیقت میں  ایسا ہر گز نہیں  ہے،لہٰذااب تم بھی اپنے حال پر غورکرلواوراپنے طرزِعمل کودرست کرلوورنہ تمہاراانجام بھی ان کی طرح ہوگا۔

جہالت کی انتہاء:

            یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں  کو اپنا شفیع ،مدد گار اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونے کا ذریعہ سمجھناکفر ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں  کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے مدد گار اورشفیع ماننا اور انہیں  اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونے کا ذریعہ سمجھناعین ایمان ہے ،جیسے بت کی طرف سجدہ کرنا کفر ہے اور کعبہ کی طرف سجدہ کرناایما ن ہے ، لہٰذا اس عظیم فرق کو پسِ پُشت ڈال کر یہ آیت اللہ تعالیٰ کے کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام اور ولی پر چسپاں  کرنا اور اسے ان کے اللہ تعالیٰ کی عطا سے مددگار اور شفیع نہ ہونے کی دلیل بنانا جہالت کی انتہاء ہے۔