Home ≫ ur ≫ Surah Al Ahqaf ≫ ayat 35 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْؕ-كَاَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوْعَدُوْنَۙ-لَمْ یَلْبَثُوْۤا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّهَارٍؕ-بَلٰغٌۚ-فَهَلْ یُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ(35)
تفسیر: صراط الجنان
{فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ: تو تم صبر کرو جیسے ہمت والے رسولوں نے صبر کیا۔} توحید ،نبوت اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کو ثابت کرنے کے بعد یہاں سے سیِّدُ المرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر صبر کرنے کی نصیحت کی جا رہی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب کافروں کا انجام یہ ہے جو ہم نے ذکر کیا توآپ اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی ایذا پر ایسے ہی صبر کریں جیسے ہمّت والے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے صبر کیا کیونکہ آپ بھی انہی میں سے ہیں بلکہ ان میں سب سے اعلیٰ ہیں اور ان کافروں کے لیے عذاب طلب کرنے میں جلدی نہ کریں کیونکہ فی الحال اگرچہ انہیں مہلت ملی ہوئی ہے لیکن قیامت کے دن ان (میں سے کفر کی حالت میں مرنے والوں ) پر عذاب ضرور نازل ہونے والاہے ، اورجس دن وہ آخرت کے اس عذاب کودیکھیں گے جس کا انہیں دنیا میں وعدہ دیا جاتا ہے تو اس کی درازی اور دَوَام کے سامنے دنیا میں ٹھہرنے کی مدت کو یہ لوگ بہت قلیل سمجھیں گے اور خیال کریں گے کہ گویا وہ دنیا میں دن کی صرف ایک گھڑی بھر ٹھہرے تھے۔ یہ قرآن اور وہ ہدایت اور روشن نشانیاں جو اس قرآن میں ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تبلیغ ہے تو عقلمند کو چاہئے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے اور یاد رکھو کہ وہی نافرمان لوگ ہی ہلاک کئے جاتے ہیں جو ایمان اور طاعت سے خارج ہیں۔(تفسیرکبیر ، الاحقاف ، تحت الآیۃ : ۳۵ ، ۱۰ / ۳۰-۳۱، روح البیان، الاحقاف، تحت الآیۃ: ۳۵، ۱۰ / ۴۹۴-۴۹۵، ملتقطاً)
ہمّت والے رسول عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام:
یوں تو سبھی انبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمّت والے ہیں اور سبھی نے راہ حق میں آنے والی تکالیف پر صبر وہمّت کا شاندارمظاہرہ کیا ہے البتہ ان کی مقدس جماعت میں سے پانچ رسول ایسے ہیں جن کا راہِ حق میں صبر اور مجاہدہ دیگرانبیاء و مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ ہے اس لئے انہیں بطورِ خاص ’’اُلُوا الْعَزْم رسول‘‘ کہا جاتا ہے اور جب بھی ’’اُلُوا الْعَزْم رسول‘‘ کہا جائے تو ان سے یہی پانچوں رسول مراد ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں :
(1)…حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ۔
(2)…حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔
(3)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔
(4)…حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔
(5)…حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔
قرآنِ مجید میں ان مقدس ہستیوں کاخاص طور پر ذکر کیا گیا ہے ،جیسا کہ سورہ ِ احزاب میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ۪-وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا‘‘(احزاب:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے محبوب!یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے اُن کا عہد لیا اور تم سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے (عہد لیا) اور ہم نے ان (سب) سے بڑا مضبوط عہد لیا۔
اور سورہِ شوریٰ میں ارشادِ بار ی تعالیٰ ہے :
’’شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِهٖۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى‘‘(شوریٰ:۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر فرمایا ہے جس کی اس نے نوح کو تاکید فرمائی اور جس کی ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی اور جس کی ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو تاکید فرمائی۔
حضرت علامہ مُلّا علی قاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہ پانچوں ہی اُلُوا الْعَزْم رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر مذکورہ (بالا) دونوں آیتوں میں اکٹھا کر دیا ہے ۔( مرقاۃ المفاتیح،کتاب الفتن،باب العلامات بین یدی الساعۃ... الخ، الفصل الاول، ۹ / ۳۷۶، تحت الحدیث: ۴۵۷۲)
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :صحیح قول کے مطابق یہ پانچوں ہی اُلُوا الْعَزْم رسول ہیں ۔( مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان، باب الایمان بالقدر، الفصل الثالث، ۱ / ۳۳۳، تحت الحدیث: ۱۲۲)
صدرُا لشّریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :نبیوں کے مختلف درجے ہیں ، بعض کو بعض پر فضیلت ہے اور سب میں افضل ہمارے آقا و مولیٰ سیِّدُالمرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہیں ، حضور (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ) کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم خَلِیلُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام کا ہے،پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام، پھر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کا، اِن حضرات کو مُرْسَلِیْنِ اُلُوا الْعَزْم کہتے ہیں اور یہ پانچوں حضرات باقی تمام انبیا و مُرسَلین ،اِنس و مَلک و جن و جمیع مخلوقاتِ الٰہی سے افضل ہیں ۔( بہار شریعت، حصہ اول، ۱ / ۵۲-۵۴)
سید المرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا صبر:
راہِ حق میں تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جتنا ستایا گیا اور جتنی تکلیفیں پہنچائی گئیں اتنی کسی اور کو نہیں پہنچائی گئیں اور صبر کا جیسا مظاہرہ آپ نے فرمایا ویسا اور کوئی نہ کر سکا، جیسا کہ حضرت اَنَس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جتنا میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں ڈرایا گیا ہوں اتنا کوئی اورنہیں ڈرایا گیا اور جتنا میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں ستایا گیا ہوں اتنا کوئی اورنہیں ستایا گیا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ... الخ، ۳۴-باب، ۴ / ۲۱۳، الحدیث: ۲۴۸۰)
حضرت عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :حضور ِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا’’اے عائشہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، دنیا (کی زیب و زینت اور عیش) محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کی آل کے لئے مناسب نہیں ،اے عائشہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، بے شک اللہ تعالیٰ اُلُوا الْعَزْم رسولوں سے یہ پسند فرماتا ہے کہ وہ دنیا کی تکلیفوں پر اور دنیا کی پسندیدہ چیزوں سے صبر کریں ، پھر مجھے بھی انہی چیزوں کا مکلف بنانا پسند کیا جن کا انہیں مکلف بنایا ،تو ارشاد فرمایا:
’’فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو (اے حبیب!) تم صبر کرو جیسے ہمت والے رسولوں نے صبر کیا ۔
اور اللہ تعالیٰ کی قسم! میرے لئے ا س کی فرمانبرداری ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ کی قسم! میرے لئے ا س کی فرمانبرداری ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی قسم!میں ضرور صبر کروں گا جس طرح اُلُوا الْعَزْم رسولوں نے صبر کیا اور قوت تو اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے۔( اخلاق النّبی لابی شیخ اصبہانی، ذکر محبتہ للتیامن فی جمع افعالہ، ص۱۵۴، الحدیث: ۸۰۶)
حضرت عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :خدا کی قسم!تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی بھی اپنی ذات کے لئے (کسی سے)انتقام نہیں لیا،ہاں جب اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اللہ تعالیٰ کے لئے انتقام لیتے تھے ۔( بخاری، کتاب الحدود، باب اقامۃ الحدود... الخ، ۴ / ۳۳۱، الحدیث: ۶۷۸۶)
صبرکے 15 فضائل:
یہاں آیت میں ہم مسلمانوں کے لئے بھی صبر کرنے کی ترغیب ہے اور ا س کی مزید ترغیب حاصل کرنے کے لئے یہاں صبر کرنے کے 15 فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)…صبر ایمان کا نصف حصہ ہے۔( حلیۃ الاولیاء، زبید بن الحارث الایامی، ۵ / ۳۸، الحدیث: ۶۲۳۵)
(2)…صبر ایمان کا ایک ستون ہے۔( شعب الایمان، باب القول فی زیادۃ الایمان ونقصانہ... الخ، ۱ / ۷۰، الحدیث: ۳۹)
(3)…بندے کو صبر سے بہتر اور وسیع کوئی چیز نہیں دی گئی۔( مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ السجدۃ، ما رزق عبد خیر لہ... الخ، ۳ / ۱۸۷، الحدیث: ۳۶۰۵)
(4)…اگر صبر کسی مرد کی شکل میں ہوتا تو وہ عزت والا مرد ہوتا۔ (حلیۃ الاولیاء، ابو مسعود الموصلی، ۸ / ۳۲۱، الحدیث: ۱۲۳۵۲)
(5)…صبر بہترین سواری ہے ۔( جامع صغیر، حرف الحائ، فصل فی المحلی بأل... الخ، ۱ / ۲۳۵، الحدیث: ۳۸۶۸)
(6)…صبر کرنے سے مدد ملتی ہے۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن العباس... الخ، ۱ / ۶۵۹، الحدیث: ۲۸۰۴)
(7)…صبر کے ساتھ آسانی کا انتظار کرنا عبادت ہے۔( شعب الایمان،السبعون من شعب الایمان...الخ، فصل فی ذکر ما فی الاوجاع... الخ، ۷ / ۲۰۴، الحدیث: ۱۰۰۰۳)
(8)…صبر مومن کا ہتھیار ہے۔ (مسند الفردوس، باب النون، ۴ / ۲۶۷، الحدیث: ۶۷۸۷)
(9)…آزمائش پر صبر کرنے والوں کے لئے امن ہے اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہیں ۔
(10)…آنکھیں چلی جانے پر صبر کرنے کی جزا ء جنت ہے۔ (بخاری، کتاب المرضی، باب فضل من ذہب بصرہ، ۴ / ۶، الحدیث: ۵۶۵۳)
(11)…صبر افضل ترین عمل ہے۔( شعب الایمان، السبعون من شعب الایمان... الخ، ۷ / ۱۲۲، الحدیث: ۹۷۱۰)
(12)…فتنے کی شدت پرصبر کرنے والے کو قیامت کے دن نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت نصیب ہوگی۔( شعب الایمان، السبعون من شعب الایمان... الخ، ۷ / ۱۲۴، الحدیث: ۹۷۲۱)
(13)…لوگوں سے میل جول رکھنے والا اور ان کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کرنے والا اُن مسلمانوں سے افضل ہے جو ایسے نہیں ہیں ۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ... الخ، ۵۵-باب، ۴ / ۲۲۷، الحدیث: ۲۵۱۵)
(14)…صبر کرنے اور اپنا محاسبہ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ حساب کے بغیر جنت میں داخل فرما دے گا۔( معجم الکبیر، الحکم بن عمیر الثمالی، ۳ / ۲۱۷، الحدیث: ۳۱۸۶)
(15)…صبر بھلائیوں کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔( رسائل ابن ابی دنیا، الصبر، ۴ / ۲۴، الحدیث: ۱۷)
اللہ تعالیٰ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صبر کے صدقے ہمیں بھی مصائب و آلام میں صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔