Home ≫ ur ≫ Surah Al Ahzab ≫ ayat 36 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاﭤ(36)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ: اور کسی مسلمان مرد اور عورت کیلئے یہ نہیں ہے کہ ۔} شانِ نزول: مفسرین فرماتے ہیں کہ حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسلام کا سورج طلوع ہونے سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو خرید کر آزاد فرمایا اور انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔حضرت زینب بنت ِجحش رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا جو حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پھوپھی امیمہ بنت ِعبد المُطّلب کی بیٹی تھیں ،سر کار ِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے نکاح کا پیغام دیا ،شروع میں تو یہ اس گمان سے راضی ہو گئیں کہ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے لئے پیغام دیا ہے لیکن جب معلوم ہو اکہ حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے رشتہ طلب فرمایا ہے تو انکار کر دیا اور عرض کر بھیجا کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں حضور کی پھوپھی کی بیٹی ہوں ا س لئے ایسے شخص کے ساتھ نکاح پسند نہیں کرتی۔ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن جحش رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے بھی اسی بنا پر انکار کیا۔اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور اسے سن کر دونو ں بہن بھائی راضی ہو گئے اور حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کا حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے نکاح ہو گیا۔(قرطبی،الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۶، ۷ / ۱۳۶-۱۳۷، الجزء الرابع عشر، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۵۰۱، ملتقطاً)
آیت ’’وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… آدمی پر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت ہر حکم میں واجب ہے ۔
(2)…حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں کوئی اپنے نفس کا بھی خود مختار نہیں ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ا س آیت کا شانِ نزول لکھنے کے بعد فرماتے ہیں ’’ظاہر ہے کہ کسی عورت پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے فرض نہیں کہ فلاں سے نکاح پرخواہی نخواہی راضی ہوجائے خصوصاً جبکہ وہ اس کا کُفو (یعنی ہم پلہ) نہ ہوخصوصاً جبکہ عورت کی شرافت ِخاندان کَواکب ِثریا (یعنی ثریا ستاروں ) سے بھی بلند وبالاتر ہو، بایں ہمہ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دیا ہوا پیام نہ ماننے پر رَبُّ الْعِزَّۃ جَلَّ جَلَالُہٗ نے بعینہٖ وہی الفاظ ارشادفرمائے جو کسی فرضِ اِلٰہ (یعنی اللہ تعالیٰ کے فرض) کے ترک پر فرمائے جاتے اوررسول کے نام پاک کے ساتھ اپنا نامِ اقدس بھی شامل فرمایا یعنی رسول جو بات تمہیں فرمائیں وہ اگرہمارا فرض نہ تھی تو اب ان کے فرمانے سے فرضِ قطعی ہوگئی ،مسلمانوں کو اس کے نہ ماننے کا اصلاً اختیار نہ رہا ،جو نہ مانے گا صریح گمراہ ہوجائے گا ،دیکھو رسول کے حکم دینے سے کام فرض ہوجاتاہے اگرچہ فی نفسہ خدا کا فرض نہ تھا ایک مباح وجائز امر تھا۔(فتاویٰ رضویہ،رسالہ: منیۃ اللبیب انّ التشریع بید الحبیب، ۳۰ / ۵۱۷-۵۱۸)
(3) … نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم اورآپ کے مشورے میں فرق ہے ،حکم پر سب کو سر جھکانا پڑے گا اورمشورہ قبول کر نے یا نہ کر نے کا حق ہو گا۔ اسی لئے یہاں : ’’اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا‘‘ ’’یعنی جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں ۔‘‘ فرمایا گیا اور دوسری جگہ ارشاد ہوا: ’’وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ‘‘(اٰل عمران:۱۵۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔
شرعی احکام اور اختیاراتِ مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو اکہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی عطا سے شرعی احکام میں خود مختار ہیں۔ آپ جسے جو چاہے حکم دے سکتے ہیں،جس کے لئے جو چیز چاہے جائز یا ناجائز کر سکتے ہیں اور جسے جس حکم سے چاہے الگ فرما سکتے ہیں ۔کثیر صحیح اَحادیث میں اس کے شواہد موجود ہیں ،یہاں ان میں سے6اَحادیث درج ذیل ہیں ،
(1)… جب حرمِ مکہ کی نباتات کو کاٹنا حرام فرمایا گیا تو حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے عرض کرنے پر اذخر گھاس کاٹنے کو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جائز فرما دیا۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرام فرمایا ہے ،پس یہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ ہوا اور نہ کسی کے لئے میرے بعد حلال ہو گا،میرے لئے بھی دن کی ایک ساعت حلال ہوا، نہ اس کی گھاس اکھاڑی جائے،نہ اس کا درخت کاٹا جائے اور نہ اس کا شکار بھڑکایا جائے اور اعلان کرنے کے علاوہ اس کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائی جائے ۔حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :اِذخر کے سوا کیونکہ وہ ہمارے سناروں اور قبروں کے کام آتی ہے ۔ارشاد فرمایا’’چلو اِذخر کے سوا (دوسری گھاس نہ اکھاڑی جائے۔)( بخاری، کتاب الجنائز، باب الاذخر والحشیش فی القبر، ۱ / ۴۵۳، الحدیث: ۱۳۴۹)
(2)…حضرت ابو بردہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے چھ مہینے کے بکری کے بچے کی قربانی کر لینا جائز کر دیا۔ چنانچہ حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ان کے ماموں حضرت ابو بردہ بن نیار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے نمازِ عید سے پہلے قربانی کرلی تھی ،جب انہیں معلوم ہوا یہ کافی نہیں تو عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ تو میں کرچکا، اب میرے پاس چھ مہینے کا بکری کا بچہ ہے مگر سال بھر والے سے اچھاہے ۔ ارشاد فرمایا: ’’اِس کی جگہ اُسے کردو اورہرگز اتنی عمر کی بکری تمہارے بعد دوسروں کی قربانی میں کافی نہ ہوگی۔(بخاری، کتاب العیدین، باب التکبیر الی العید، ۱ / ۳۳۲، الحدیث: ۹۶۸)
(3)…حضرت اُمِّ عطیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو ایک گھر کے مُردے پر بَین کر کے رونے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ حضرت اُمِّ عطیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں (جب عورتوں کی بیعت سے متعلق آیت اتری اوراس میں ہر گناہ سے بچنے کی شرط تھی کہ لَا یَعْصِیْنَكَ فِیْ مَعْرُوْفٍ، اورمردے پر بین کر کے رونا چیخنا بھی گناہ تھا) میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، فلاں گھر والوں کا اِستثناء فرمادیجئے کیونکہ انہوں نے زمانہ ٔجاہلیّت میں میرے ساتھ ہوکر میری ایک میت پر نوحہ کیاتھا تو مجھے ان کی میت پر نوحے میں ان کا ساتھ دینا ضروری ہے ۔سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھا وہ مُستَثنیٰ کردئیے۔‘‘(مسلم، کتاب الجنائز، باب التشدید فی النیاحۃ، ص۴۶۶، الحدیث: ۳۳(۹۳۷))
(4)…حضرت اسماء بنت عمیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو وفات کی عدت کے عام حکم سے الگ فرما دیا اور ان کی عدت چار مہینے دس دن کی بجائے تین دن مقرر فرما دی ۔چنانچہ حضرت اسماء بنت عُمیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں : جب حضرت جعفر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ شہید ہو گئے توسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے حکم دیا:تم تین دن تک (سنگار سے) رکی رہو،پھر جو چاہو کرو۔(معجم الکبیر ، اسماء بنت عمیس الخثعمیۃ من المہاجرات ، عبد اللّٰہ بن شداد بن الہاد عن اسماء ، ۲۴ / ۱۳۹ ، الحدیث: ۳۶۹)
(5)…ایک شخص کے لئے قرآن مجید کی سورت سکھا دینا مہر مقرر فرما دیا۔چنانچہ حضرت ابو نعمان ازدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک شخص نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے ارشاد فرمایا:مہردو۔اس نے عرض کی:میرے پاس کچھ نہیں ۔ارشاد فرمایا :کیا تجھے قرآنِ عظیم کی کوئی سورت نہیں آتی ، وہ سورت سکھانا ہی اس کا مہر کر، اورتیرے بعد یہ مہر کسی اورکو کافی نہیں ۔(شرح الزرقانی، الفصل الرابع فیما اختص بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الفضائل والکرامات، ۷ / ۳۵۶، مختصراً)
نوٹ:یاد رہے کہ قرآن مجید کی کوئی سورت سکھانا یا کوئی پارہ زبانی یاد کر کے عورت کو سنا دینا اس کا شرعی مہر نہیں ہو سکتا اگرچہ عورت اس کا تقاضا کرے اور اگر عورت کے مطالبے پر شوہر نے ایسا کر دیا تو وہ مہر کی ادائیگی سے بری الذِّمہ نہ ہوگا، اگر عقدِ نکاح میں اس چیز کا تَعَیُّن نہیں ہوا جو مہر بن سکتی ہے تو شوہر پر مہرِ مثل دینالازم ہو گا، ہاں اگر عورت اپنی مرضی سے یوں کہے: اگر تم مجھے فلاں پارہ یا سورت یاد کر کے سنا دو تو میرا مہر تجھے معاف ہے ، تو یہ جائزہے ۔
(6)…حضرت خزیمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی گواہی ہمیشہ کے لئے دو مَردوں کی گواہی کے برابر فرما دی ۔چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک اعرابی سے گھوڑا خریدا،وہ بیچ کر مکر گیا اور گواہ مانگا، جو مسلمان آتا اعرابی کو جھڑکتا کہ تیرے لئے خرابی ہو ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حق کے سوا کیا فرمائیں گے (مگر گواہی کوئی نہیں دیتا کیونکہ کسی کے سامنے کا واقعہ نہ تھا) اتنے میں حضرت خزیمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بارگاہ میں حاضر ہوئے اور گفتگو سن کر بولے: میں گواہی دیتاہوں کہ تو نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہاتھ گھوڑا بیچا ہے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم تو موقع پرموجودہی نہیں تھے،پھر تم نے گواہی کیسے دی؟عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں حضور کی تصدیق سے گواہی دے رہاہوں اور ایک روایت میں ہے کہ’’ میں حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لائے ہوئے دین پر ایمان لایا ہوں اور یقین جانا کہ حضور حق ہی فرمائیں گے، میں آسمان وزمین کی خبروں پر حضور کی تصدیق کرتاہوں توکیا اس اعرابی کے مقابلے میں تصدیق نہ کروں گا ۔اس کے انعام میں حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیشہ ان کی گواہی دو مَردکی گواہی کے برابر فرمادی اورارشاد فرمایا: ’’خزیمہ جس کسی کے نفع خواہ ضَرر کی گواہی دیں ایک انہیں کی گواہی کافی ہے ۔( ابو داؤد،کتاب الاقضیۃ،باب اذا علم الحاکم صدق الشاہد الواحد۔۔۔الخ،۳ / ۴۳۱، الحدیث: ۳۶۰۷، معجم الکبیر، خزیمۃ بن ثابت الانصاری۔۔۔ الخ، عمارۃ بن خزیمۃ بن ثابت عن ابیہ، ۴ / ۸۷، الحدیث: ۳۷۳۰)
نوٹ:شرعی احکام میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اختیارات سے متعلق بہترین معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے رسالے ’’مُنْیَۃُ اللَّبِیْب اَنَّ التَّشْرِیْعَ بِیَدِ الْحَبِیْب‘‘(بیشک شرعی احکام اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اختیار میں ہیں ) کا مطالعہ فرمائیں ۔