banner image

Home ur Surah Al Anam ayat 103 Translation Tafsir

اَلْاَ نْعَام

Al Anam

HR Background

لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(103)

ترجمہ: کنزالایمان آنکھیں اسے احاطہ نہیں کرتیں اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں اور وہی ہے نہایت باطن پورا خبردار۔ ترجمہ: کنزالعرفان آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ تمام آنکھوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور وہی ہر باریک چیز کو جاننے والا، بڑا خبردار ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ: آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔} اِس آیت کا مفہوم سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ عقائد کے متعلق بہت سے مسائل کا دارومدار اِسی پر ہے۔

آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے متعلق اہلسنّت کا عقیدہ :

            یاد رکھیں کہ اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ مومنوں کو آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدارہوگا۔اہلِ سنت کا یہ عقیدہ قرآن و حدیث، اجماعِ صحابہ اور اکابر بزرگانِ دین کے کثیردلائل سے ثابت ہے ۔

دیدارِ الٰہی کے قرآنِ پاک سے تین دلائل:

(1)… ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ(۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ‘‘ (القیامہ:۲۳،۲۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے۔

(2)…اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:

’’لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌ ‘‘ (یونس :۲۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بھلائی والوں کے لئے بھلائی ہے اور اس سے بھی زائد۔

            صحاحِ ستہ کی بہت حدیثیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ اس آیت میں زیادت سے دیدارِ الٰہی مراد ہے ۔

(3)… حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کی’’رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَ‘‘ اے میرے رب مجھے اپنا دیدار دکھا کہ میں تجھے دیکھوں۔ اس پر انہیں جواب ملا ’’لَنْ تَرٰىنِیْ‘‘ تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا ۔ (اعراف: ۱۴۳) اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرا دیدار ناممکن ہے کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عارِف باللہ ہیں ، اگر دیدارِ الٰہی ممکن نہ ہوتا تو آپ ہر گز سوال نہ فرماتے، اس سے ثابت ہوا کہ دیدارِ الٰہی ممکن ہے۔

دیدارِ الٰہی کے احادیث سے 3دلائل:

           احادیث بھی اس بارے میں بکثرت ہیں ، ان میں سے 3 احادیث درج ذیل ہیں :

(1)… مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جنتیوں کے جنت میں داخل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’کیا تم چاہتے ہو کہ تم پر اور زیادہ عنایت کروں ؟ وہ عرض کریں گے: یارب! عَزَّوَجَلَّ کیا تو نے ہمارے چہرے سفید نہیں کئے؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا ؟ کیا تو نے ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی ؟ رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ پھرپردہ اٹھا دیا جائے گا تو دیدارِ الٰہی انہیں ہر نعمت سے زیادہ پیارا ہوگا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب اثبات رؤیۃ المؤمنین فی الآخرۃ ربہم سبحانہ وتعالی، ص۱۱۰، الحدیث: ۲۹۷(۱۸۱))

(2)…حضرت جریر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ہم سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ رات کے وقت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’عنقریب تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھو گے جیسے اس چاندکو دیکھتے ہو اور اسے دیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہ کرو گے۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر، ۱ / ۲۰۳، الحدیث: ۵۵۴)

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھیں گے؟ ارشاد فرمایا: کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تو سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ عرض کی: نہیں۔ ارشاد فرمایا: چودھویں رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا تمہیں چاند دیکھنے سے کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: نہیں ، ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھنے میں صرف اتنی تکلیف ہو گی جتنی تکلیف تم کو سورج یا چاند دیکھنے سے ہوتی ہے۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۷، الحدیث: ۱۶(۲۹۶۸))

             ان دلائل سے ثابت ہوگیا کہ آخرت میں مؤمنین کے لئے دیدارِ الٰہی شرع میں ثابت ہے اور اس کا انکار گمراہی۔ گمراہ لوگ اِس آیت کے ذریعے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیدار کا انکار کرتے ہیں ، ہم یہاں آیت کا مفہوم بیان کرتے ہیں اس سے سارا معاملہ واضح ہوجائے گا۔آیت کے مفہوم کو کافی آسان کیا ہے لیکن پھر بھی اسے مکمل طور پر علماء ہی سمجھ سکتے ہیں لہٰذا عوام کی خدمت میں یہی عرض ہے کہ اوپر تک جو بیان ہوا وہی ان کیلئے کافی ہے اور نیچے کی بحث پر زیادہ دماغ نہ لڑائیں اور اگر ضرور ہی سمجھنا ہے تو کسی صحیح العقیدہ ، ماہرسنی عالم سے سمجھیں۔

 آیت’’ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ‘‘ کا مفہوم:

            اِدراک کے معنیٰ ہیں کہ دیکھی جانے والی چیز کی تمام طرفوں اور حدوں پر واقف ہونا کہ یہ چیز فلاں جگہ سے شروع ہو کر فلاں جگہ ختم ہوگئی جیسے انسان کو ہم کہیں کہ سر سے شروع ہوکر پاؤں پر ختم ہوگیا، اِسی کو اِحاطہ (گھیراؤ) کہتے ہیں۔ اِدراک کی یہی تفسیر حضرت سعید بن مُسیَّبْ اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے منقول ہے اور جمہور مفسرین اِدراک کی تفسیر اِحاطہ سے فرماتے ہیں اور اِحاطہ اسی چیز کا ہوسکتا ہے جس کی حدیں اور جہتیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے حد اور جہت محال ہے تو اس کا ادراک واحاطہ بھی ناممکن ۔یہی اہلِ سنت کامذہب ہے۔ خارجی اور معتزلہ وغیرہ گمراہ فرقے اِدراک اور رُویت میں فرق نہیں کرتے، اس لئے وہ اس گمراہی میں مبتلا ہوگئے کہ انہوں نے دیدارِ الٰہی کو محالِ عقلی قرار دے دیا، حالانکہ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا نہیں جاسکتا تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو جانا بھی نہیں جاسکتا اور جیسے کائنات میں موجود تمام چیزوں کے برخلاف کیفیت وجہت کے بغیر اللہ عَزَّوَجَلَّ کو جانا جاسکتا ہے ایسے ہی دیکھا بھی جاسکتا ہے کیونکہ اگر دوسری موجودات بغیر کیفیَّت و جہت کے دیکھی نہیں جاسکتیں تو جانی بھی نہیں جاسکتیں۔ اس کلام کی بنیاد یہ ہے کہ دیکھنے کے معنی یہ ہیں کہ بصر (دیکھنے کی قوت) کسی شے کو جیسی وہ ہو ویسا جانے تو جو شے جہت والی ہوگی، اس کا دیکھا جانا جہت میں ہوگا اور جس کے لئے جہت نہ ہوگی اس کا دیکھا جانا بغیر جہت کے ہوگا۔