banner image

Home ur Surah Al Anam ayat 115 Translation Tafsir

اَلْاَ نْعَام

Al Anam

HR Background

وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًاؕ-لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(115)

ترجمہ: کنزالایمان اور پوری ہے تیرے رب کی بات سچ اور انصاف میں اس کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں اور وہی ہے سنتا جانتا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور سچ اور انصاف کے اعتبار سے تیرے رب کے کلمات کامل ہیں ۔ اس کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ:اور پوری ہے تیرے رب کی بات۔} رب کی بات سے مراد وہ فیصلۂ الٰہی ہے جو کفار ومومن کے متعلق ہو چکایا اس سے تمام آسمانی کتابیں مراد ہیں یا قرآن شریف ، الغرض جو کچھ بھی مراد ہو مقصود بالکل ظاہر ہے۔

قرآنِ مجید کی 4شانیں :

             اس آیتِ کریمہ میں قرآنِ پاک کی چار شانیں بیان کی گئی ہیں :

(1)…قرآنِ پاک مکمل ہے اس کا کوئی پہلو ناتمام نہیں۔

(2)…قرآنِ پاک میں بتائی گئی تمام باتیں حق اور سچائی پر مَبنی ہیں۔

(3)…جو شرعی احکام قرآنِ پاک میں ہیں وہ ہر اعتبار سے عدل وانصاف پر مشتمل ہیں۔

(4)…قرآنِ پاک ہمیشہ کیلئے ہر طرح کی تبدیلی اور تحریف سے محفوظ ہے۔

مخلوق کے شر سے بچنے کے لئے 3 وظائف:

            اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کا ذکر ہوا،ا س کی مناسبت سے ہم یہاں مخلوق کے شر سے بچنے کے تین وہ وظائف ذکر کرتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کا ذکر ہے۔

(1)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت حسن اور حضرت حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاپر چند کلمات پڑھ کر پھونکا کرتے اور فرماتے ’’ تمہارے جدِ امجد بھی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر انہیں پڑھ کر دم کیا کرتے تھے ۔ (وہ کلمات یہ ہیں ) ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَّہَامَّۃٍ ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ‘‘۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۱۱-باب، ۲ / ۴۲۹، الحدیث: ۳۳۷۱)

            شیطان کے شر اور نظر بد سے محفوظ رہنے کے لئے یہ وظیفہ انتہائی مفید ہے۔

(2)…حضرت خولہ بنتِ حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص (سفر کے دوران) کسی جگہ اترے اور یہ کلمات کہے ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ‘‘ تو اس مقام سے کوچ کرنے تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء مایقول اذا نزل منزلًا، ۵ / ۲۷۵، الحدیث: ۳۴۴۸)

(3)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سونے سے پہلے یہ کہا کرتے تھے ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِوَجْہِکَ الْکَرِیْمِ وَکَلِمَاتِکَ التَّامَّۃِ مِنْ شَرِّ مَا اَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ اَللّٰہُمَّ اَنْتَ تَکْشِفُ الْمَغْرَمَ وَالْمَاْثَمَ اَللّٰہُمَّ لاَ یُہْزَمُ جُنْدُکَ وَلاَ یُخْلَفُ وَعْدُکَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ‘‘اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں تیری بزرگ ذات اور تیرے مکمل کلمات کی پناہ پکڑتا ہوں اس کے شر سے جسے تو پیشانی سے پکڑنے والاہے۔ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو ہی قرض ادا کرواتا اور گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تیرے لشکر کو شکست نہیں ہو گی اور تیرا وعدہ غلط نہیں ہو گا، تیرے سامنے کسی زور آور کا زور نہیں چلتا۔ تو پاک ہے اور سب تعریفیں تیرے لئے ہیں۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب مایقول عند النوم، ۴ / ۴۰۶، الحدیث: ۵۰۵۲)