ترجمہ: کنزالایمان
اور اُسے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا اور وہ بیشک حکم عدولی ہے اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم ان کا کہنا مانو تو اس وقت تم مشرک ہو۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ اور بیشک یہ نافرمانی ہے اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تا کہ وہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم ان کا کہنا مانوگے تو اس وقت تم بھی یقینا مشرک ہوگے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ:اور جس پر اللہ کا نام نہ
لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ۔} جس جانور
پر ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا اس
کا کھانا حلال ہے، یہ بیان فرمانے کے بعد اب اس جانور کو کھانے سے منع کیا جا رہا
ہے کہ جسے ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر اس پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر نہیں کیا گیا۔ لہٰذا حکم یہ ہے کہ جس جانور پر
مسلمان یا کتابی نے جان بوجھ کراللہ تعالیٰ کا نام ذکر نہ کیا وہ حرام ہے اور اگر بھول کر نام لینا رہ
گیا تو حلال ہے اور مسلمان و کتابی کے علاوہ کسی دوسرے کا ذبح کیا ہوا مُطْلَقاً
حرام ہے۔ یاد رہے کہ یہاں کتابی سے مراد وہ اہلِ کتاب ہیں جو اپنے نبی اور کتاب پر
ایمان رکھتے ہیں۔ محض نام کے عیسائی اور حقیقت میں دَہریہ مراد نہیں ہیں۔
{ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیٰٓـٕهِمْ:اور بیشک شیطان اپنے دوستوں
کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں۔} اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر کا
خلاصہ یہ ہے کہ شیطان اپنے دوستوں یعنی مشرکوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ
مردار کھانے کے معاملے میں تم سے جھگڑا کریں جیسا کہ اوپر کافروں کا ایک اعتراض
نقل کیا گیا ہے۔ مزید فرمایا گیا کہ اے مسلمانو! اگر تم نے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کو حلال کہنے میں ان کافروں
کی بات مانی تو اس وقت تم بھی یقینا مشرک ہوگے کیونکہ دین میں حکمِ الٰہی کو
چھوڑنا اور دوسرے کے حکم کو ماننا اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کو حاکم قرار دینا شرک ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ’’ بغیر علم دینی مسائل میں جھگڑنا یا محض
جھگڑے کی نیت سے مناظرہ کرنا شیطانی لوگوں کا کام ہے لیکن تحقیقِ حق کے لئے مناظرہ
کرنا عبادت ہے۔
مضامین
سورۂ اَنعام کے
مضامین:
سورۂ اَنعام قرآنِ مجید
میں مذکور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے پہلی مکی سورت ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے
کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد ،جیسے اللہ
تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت ،ا س کی صفات اور اس کی قدرت کو انسان کی اندرونی
اور بیرونی شہادتوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے
شُبہات کے رد پر عقلی اور حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کئے جانے ،قیامت کے دن اعمال کاحساب ہونے اور اعمال کی جزاء ملنے کو دلائل سے ثابت
کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …زمین میں گھوم پھر
کر سابقہ لوگوں کی اجڑی بستیاں ،ویران گھر اور ان پر کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار دیکھ کر ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب
دی گئی ہے۔
(2) …جانور ذبح کرنے اور
ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانے کے احکام بیان کئے گئے اور اپنی طرف سے حلال جانوروں
کو حرام قرار دینے کا رد کیا گیا ہے ۔
(3) …والدین کے ساتھ
احسان کرنے، ظاہری اور باطنی بے حیائیوں سے بچنے، تنگدستی کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ
کرنے اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(4) … حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ
بیان کیا گیا اور آخر میں قرآن اور دین اسلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
مناسبت
سورۂ مائدہ کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ اَنعام کی اپنے سے
ما قبل سورت’’ مائدہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر87 میں
مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! ان
پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہ
نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔
اور سورۂ اَنعام میں یہ
خبر دی گئی کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چند (حلال) چیزوں کو(اپنی طرف سے ) حرام قرار دے دیا اور یہ
کہہ دیاکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے،
اور یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو (اپنی طرف سے) حرام قرار دے دیا تو وہ کفار کے مشابہ ہو جائیں
گے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الانعام، ص۸۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پوری سورۂ اَنعام ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل
ہوئی،اور انہی سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ سورۂ اَنعام کی6 آیتیں مدینہ منورہ میں
نازل ہوئیں اور باقی سورت ایک ہی مرتبہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔( خازن، تفسیر سورۃ الانعام، ۲ / ۲)
عربی میں مویشیوں کو
’’اَنعام‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کا نام ’’اَنعام‘‘ اس مناسبت سے رکھا گیا کہ اس
سورت کی آیت نمبر 136 اور138 میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو اپنے مویشیوں میں
بتوں کو حصہ دار ٹھہراتے تھے اور خود ہی چند جانوروں کو اپنے لئے حلال اور چند
جانوروں کو اپنے اوپر حرام سمجھنے لگے تھے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سورۂ
اَنعام نازل ہوئی اور اس کے ساتھ بلند آواز سے تسبیح کرتی ہوئی فرشتوں کی ایک
جماعت تھی جس سے زمین و آسمان کے کنارے بھر گئے، زمین ان فرشتوں کی وجہ سے ہلنے
لگی اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمْ ‘‘ کہا۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،
ذکر سورۃ الانعام، ۲ / ۴۷۰، الحدیث: ۲۴۳۳)