Home ≫ ur ≫ Surah Al Anam ≫ ayat 125 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِۚ-وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِؕ-كَذٰلِكَ یَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ(125)
تفسیر: صراط الجنان
{ فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ:اور جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے۔} اللہ تعالیٰ نے ازل سے ہی اپنی مخلوق کی دو قسمیں بنائیں (1) شقی(2) سعید، اور ہر ایک کیلئے نشانی بنائی کہ جس سے اس کی پہچان ہو۔ سعادت کی نشانی اسلام کے لئے سینہ کھلنا اور ایمان قبول کرنا جبکہ شقاوت کی نشانی سینہ کی تنگی اور اسلام قبول نہ کرناہے۔ اور ہر گروہ کے لئے آخرت میں ایک گھر بنایا جس میں وہ لوگ رہیں گے۔ سعادت مند جنت اور اس کی نعمتوں میں رہیں گے اور شقاوت والوں کو جہنم کی آگ میں رہنا اور اس کا عذاب سہنا پڑے گا۔ حدیث میں ہے ’’اللہ تعالیٰ نے ایک مخلوق کو پیدا فرمایا اور ارشاد فرمایا: یہ جنت کے لئے ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ، اور ایک مخلوق کو پید افرمایا اور فرمایا: یہ جہنم کے لئے ہیں اور مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی مخلوق کی نشانی بیان فرمائی ہے،لہٰذا جب اللہ تعالیٰ بندے کو شرحِ صدر کی توفیق دے اور اسے حلاوتِ ایمان سے بھر دے تو وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے عظیم نعمت عطا فرمائی ہے۔ (صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۲ / ۶۲۷)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جسے جنت کے لیے پیدا کیا گیا اس کے لیے عبادت کے اسباب آسان کردیئے جاتے ہیں اور جسے جہنم کے لیے پیدا کیا گیا اس کے لیے گناہ کے اسباب آسان کردیئے جاتے ہیں اور اس کے دل میں شیطان کا حکم مُسلَّط کیا جاتا ہے کیونکہ وہ طرح طرح کی باتوں سے بیوقوف لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحمت والا ہے لہٰذا تمہیں کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے، تمام لوگ اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے لہٰذا تم ان کی مخالفت نہ کرو، زندگی بہت طویل ہے لہٰذا انتظار کرو کل توبہ کرلینا، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْؕ-وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا ‘‘(نساء :۱۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:شیطان انہیں وعدے دیتا ہے اور آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان انہیں صرف فریب کے وعدے دیتا ہے۔
یعنی وہ ان کو توبہ کا وعدہ دیتا اور مغفرت کی تمنا دلاتا ہے اور ان حیلوں سے اِذنِ خداوندی سے ان کوہلاک کردیتا ہے، اس کے دل کو دھوکے کی قبولیت کے لیے کشادہ اور قبولِ حق سے تنگ کردیتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قضا اور تقدیر سے ہوتا ہے۔ ہدایت و گمراہی کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، وہ جو چاہے کرتا ہے اور جو ارادہ فرمائے حکم دیتا ہے اس کے حکم کو کوئی رد نہیں کرسکتا اور نہ کوئی اس کے فیصلے کو مؤخر کرسکتا ہے اس نے جنت اور اہلِ جنت کو پیدا کیا اور ان کو عبادت پر لگایا نیز جہنم اور اہلِ جہنم کو پید اکیا اور ان کو گناہوں پر لگادیا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب شرح عجائب القلب، بیان سرعۃ تقلب القلب۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۹)
شرح کا اصلی معنی ہے ’’وسیع کرنا‘‘ جبکہ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے دل میں روشنی پیدا فرماتا ہے یہاں تک کہ اس کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہو جاتا ہے۔ (صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۲ / ۶۲۷)
جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: اس کھولنے سے کیا مراد ہے؟ا رشاد فرمایا: ’’ اس سے مراد وہ نور ہے جو مومن کے دل میں ڈالا جاتا ہے جس سے اس کا دل کھل جاتا ہے۔ عرض کی گئی: کیا اس کی کوئی نشانی ہے جس سے اس کی پہچان ہو سکے؟ ارشاد فرمایا: ’’ہاں ، (اس کی تین علامتیں ہیں ) (1)آخرت کی طرف رغبت(2) دنیا سے نفرت ، اور (3) موت سے پہلے اس کی تیاری۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، ما ذکر عن نبینا صلی اللہ علیہ وسلم فی الزہد، ۸ / ۱۲۶، الحدیث: ۱۴)
{ وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ:اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے۔} جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اس کا سینہ تنگ، بہت ہی تنگ کردیتا ہے کہ اس میں علم اور دلائلِ توحید و ایمان کی گنجائش نہ رہے، تو اس کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ جب اس کو ایمان کی دعوت دی جاتی ہے اور اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اس پر نہایت شاق ہوتا ہے اور اس کو بہت دشوار معلوم ہوتا ہیگویا کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے۔
سینے کی تنگی کی علامت:
اس سے معلوم ہوا کہ دینی کام بھاری معلوم ہونا اور دنیاوی کام آسان محسوس ہونا، سینے کی تنگی کی علامت ہے اور سینے کی تنگی یہ ہے کہ اسباب ِ کفرجمع ہو جائیں اور اسلام کے اسباب نہ مہیا ہو سکیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے محفوظ فرمائے۔ بعض پر ایمان بھاری ہوتا ہے، بعض پر نیک اعمال بھاری اور بعض پر عشق اور وجدان بھاری ہے۔ خیال رہے کہ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بندہ کفر کرنے پر مجبور ہے بلکہ وہ جو کفر و سرکشی کرتا ہے وہ اپنے اختیار سے کرتا ہے اور آدمی کی بد کرداریوں سے دل میں یہ حال پیدا ہوتا ہے جیسے لوہا زنگ لگ کر بیکار ہو جاتا ہے اسی طرح گناہوں کی وجہ سے دل زنگ آلود ہو کر حق قبول کرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔