Home ≫ ur ≫ Surah Al Anam ≫ ayat 144 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِؕ-قُلْ ءٰٓالذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِؕ-اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ اِذْ وَصّٰىكُمُ اللّٰهُ بِهٰذَاۚ-فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا لِّیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(144)
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ مِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ:اور ایک جوڑا اونٹ کا۔}اس آیتِ کریمہ میں دور ِجاہلیت کے ان لوگوں کا رد ہے جو اپنی طرف سے حلال چیزوں کوحرام ٹھہرا لیا کرتے تھے جن کا ذکر اُوپر کی آیات میں آچکا ہے۔ شانِ نزول جب اسلام میں احکام کا بیان ہوا تو انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جھگڑا کیا اور ان کا خطیب مالک بن عوف حشمی سیّد ِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ’’ یا محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ہم نے سُنا ہے آپ اُن چیزوں کو حرام کرتے ہیں جو ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے ہیں۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’تم نے بغیر کسی اصل کے چوپایوں کی چند قسمیں حرام کرلیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آٹھ نرو مادہ اپنے بندوں کے کھانے اور ان کے نفع اٹھانے کے لئے پیدا کئے۔ تم نے کہاں سے انہیں حرام کیا؟ ان میں حرمت نر کی طرف سے آئی یا مادہ کی طرف سے۔ مالک بن عوف یہ سن کر ساکِت اور مُتَحیر رہ گیا اور کچھ نہ بول سکا۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ بولتے کیوں نہیں ؟ کہنے لگا :آپ فرمائیے میں سنوں گا۔ سُبْحَانَ اللہ، قرآنِ پاک کی دلیل کی قوت اور زور نے اہلِ جاہلیت کے خطیب کو ساکت و حیران کردیا اور وہ بول ہی کیا سکتا تھا ؟اگر کہتا کہ نر کی طرف سے حرمت آئی تو لازم ہوتا کہ تمام نر حرام ہوں ، اگر کہتا کہ مادہ کی طرف سے تو ضروری ہوتا کہ ہر ایک مادہ حرام ہو اور اگر کہتا جو پیٹ میں ہے وہ حرام ہے تو پھر سب ہی حرام ہوجاتے کیونکہ جو پیٹ میں رہتا ہے وہ نر ہوتا ہے یا مادہ ۔ وہ جو تخصیص قائم کرتے تھے اور بعض کو حلال اور بعض کو حرام قرار دیتے تھے اس حجت نے ان کے اس دعویٔ تحریم کو باطل کردیا۔
{ اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ:کیا تم موجود تھے۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے تم سے براہ ِراست تو بیان فرمایا نہیں اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے ان جانوروں کی حرمت آئی نہیں تو اب ان جانوروں کے حرام ہونے کی کیا صورت باقی رہی۔ لہٰذا جب یہ بات نہیں ہے تو حرمت کے ان احکام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا جھوٹ، باطل اور خالص بہتان ہے اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر بہتان باندھے وہ سب سے بڑا ظالم ہے ، لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ ظالموں کو جب تک وہ اپنے ظلم پر قائم رہیں ہدایت نہیں دیتا۔