ترجمہ: کنزالایمان
اور یہودیوں پر ہم نے حرام کیا ہر ناخن والا جانور اور گائے اور بکری کی چربی ان پر حرام کی مگر جو ان کی پیٹھ میں لگی ہو یا آنت میں یا ہڈی سے ملی ہو ہم نے یہ ان کی سرکشی کا بدلہ دیا اور بیشک ہم ضرور سچے ہیں۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے یہودیوں پر ہر ناخن والا جانور حرام کردیا اور ہم نے ان پر گائے اور بکری کی چربی حرام کردی سوائے اس چربی کے جو ان کی پیٹھ کے ساتھ یا انتڑیوں سے لگی ہو یا جو چربی ہڈی سے ملی ہوئی ہو۔ ہم نے یہ ان کی سرکشی کا بدلہ دیااور بیشک ہم ضرور سچے ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ عَلَى الَّذِیْنَ
هَادُوْا حَرَّمْنَا:اور یہودیوں پر ہم نے حرام کیا۔} یہودی اپنی سرکشی کے باعث ان چیزوں سے محروم کئے گئے:
(1)…ہر ناخن والا جانور۔ یہاں ناخن سے مراد انگلی ہے خواہ انگلیاں بیچ سے پھٹی ہوں جیسے کتا
اور درندے یا نہ پھٹی ہوں بلکہ کھر کی صورت میں ہوں جیسے اونٹ، شترمرغ اور بطخ
وغیرہ۔بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہاں بطورِ خاص شتر مرغ ، بطخ اور اُونٹ مراد ہیں۔
(2)…گائے اور بکری کی چربی۔ یہودیوں پر گائے، بکری کا گوشت وغیرہ حلال تھا لیکن ان کی چربی حرام
تھی البتہ جو چربی گائے بکری کی پیٹھ میں لگی ہو یاآنت یا ہڈی سے ملی ہو وہ ان کے
لئے حلا ل تھی۔ یہودی چونکہ اپنی سرکشی کے باعث ان چیزوں سے محروم کئے گئے تھے
لہٰذا یہ چیزیں اُن پر حرام رہیں اور ہماری شریعت میں گائے بکری کی چربی اور اونٹ،
بطخ اور شتر مرغ حلال ہیں ، اسی پر صحابۂ کرام اور تابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا اجماع ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ص۴۰۴-۴۰۵)
اس سے معلوم ہوا کہ گزشتہ شریعتوں کے وہ احکام جو بطورِ سزا جاری کئے
گئے تھے وہ ہمارے لئے لائقِ عمل نہیں اگرچہ نص میں مذکور ہو جائیں کیونکہ یہ امتِ
مرحومہ ہے، پچھلی امتوں کے سخت احکام ہم پر جاری نہیں۔
مضامین
سورۂ اَنعام کے
مضامین:
سورۂ اَنعام قرآنِ مجید
میں مذکور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے پہلی مکی سورت ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے
کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد ،جیسے اللہ
تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت ،ا س کی صفات اور اس کی قدرت کو انسان کی اندرونی
اور بیرونی شہادتوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے
شُبہات کے رد پر عقلی اور حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کئے جانے ،قیامت کے دن اعمال کاحساب ہونے اور اعمال کی جزاء ملنے کو دلائل سے ثابت
کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …زمین میں گھوم پھر
کر سابقہ لوگوں کی اجڑی بستیاں ،ویران گھر اور ان پر کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار دیکھ کر ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب
دی گئی ہے۔
(2) …جانور ذبح کرنے اور
ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانے کے احکام بیان کئے گئے اور اپنی طرف سے حلال جانوروں
کو حرام قرار دینے کا رد کیا گیا ہے ۔
(3) …والدین کے ساتھ
احسان کرنے، ظاہری اور باطنی بے حیائیوں سے بچنے، تنگدستی کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ
کرنے اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(4) … حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ
بیان کیا گیا اور آخر میں قرآن اور دین اسلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
مناسبت
سورۂ مائدہ کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ اَنعام کی اپنے سے
ما قبل سورت’’ مائدہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر87 میں
مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! ان
پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہ
نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔
اور سورۂ اَنعام میں یہ
خبر دی گئی کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چند (حلال) چیزوں کو(اپنی طرف سے ) حرام قرار دے دیا اور یہ
کہہ دیاکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے،
اور یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو (اپنی طرف سے) حرام قرار دے دیا تو وہ کفار کے مشابہ ہو جائیں
گے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الانعام، ص۸۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پوری سورۂ اَنعام ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل
ہوئی،اور انہی سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ سورۂ اَنعام کی6 آیتیں مدینہ منورہ میں
نازل ہوئیں اور باقی سورت ایک ہی مرتبہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔( خازن، تفسیر سورۃ الانعام، ۲ / ۲)
عربی میں مویشیوں کو
’’اَنعام‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کا نام ’’اَنعام‘‘ اس مناسبت سے رکھا گیا کہ اس
سورت کی آیت نمبر 136 اور138 میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو اپنے مویشیوں میں
بتوں کو حصہ دار ٹھہراتے تھے اور خود ہی چند جانوروں کو اپنے لئے حلال اور چند
جانوروں کو اپنے اوپر حرام سمجھنے لگے تھے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سورۂ
اَنعام نازل ہوئی اور اس کے ساتھ بلند آواز سے تسبیح کرتی ہوئی فرشتوں کی ایک
جماعت تھی جس سے زمین و آسمان کے کنارے بھر گئے، زمین ان فرشتوں کی وجہ سے ہلنے
لگی اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمْ ‘‘ کہا۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،
ذکر سورۃ الانعام، ۲ / ۴۷۰، الحدیث: ۲۴۳۳)