ترجمہ: کنزالایمان
تم فرماؤ تو اللہ ہی کی حجت پوری ہے تو وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت فرماتا۔
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ تو کامل دلیل اللہ ہی کی ہے تواگر وہ چاہتا توتم سب کو ہدایت دیدیتا۔
تفسیر: صراط الجنان
{ قُلْ فَلِلّٰهِ
الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ:تم فرماؤ تو اللہ ہی کی حجت پوری ہے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ایسی دلیل جو تمام تر شکوک و شبہات کو جڑ
سے اکھاڑ دے وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پا س ہے، اس آیت میں یہ تنبیہ ہے کہ اللہعَزَّوَجَلَّ واحد ہے اس
نے رسولوں کو دلائل اور معجزات دے کر بھیجا اور
ہر مُکَلَّف پر اپنے احکام کو لازم کیا ہے اور ان کو مکلف کرنے کے لئے یہ کافی
ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کام کرنے
یا نہ کرنے کا اختیار دیاہے یعنی انہیں بااختیار بنایا ہے۔ (قرطبی، الانعام،
تحت الآیۃ: ۱۴۹، ۴ / ۹۳-۹۴، الجزء السابع)
اور اللہ تعالیٰ
کی حکمت یہی ہے کہ بندے اپنے اختیار سے ایمان لائیں اور اس کے احکام کی تعمیل کریں
ورنہ اگر وہ چاہتا تو جبرا ًسب
انسانوں کو مومن بنا دیتا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت میں نہیں ہے ا س لئے ان کا یہ کہنا بالکل لَغْو ہے
کہ اگر اللہعَزَّوَجَلَّ چاہتا تو ہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا، نہ وہ بحیرہ وغیرہ کو حرام
قرار دیتے کیونکہ ا س قسم کا جَبری ایماناللہ تعالیٰ کا مطلوب نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ لوگ اپنی عقل سے کام لیں
، حق اور باطل کو جانچیں ، کھرے کھوٹے کو پرکھیں ، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعلیمات اور شیطان کے وسوسوں میں فرق محسوس کریں اور اپنے اختیار
سے برے کاموں اور بری باتوں کو ترک کریں اور شیطان کا انکار کر کے اللہعَزَّوَجَلَّ پر ایمان
لانے کو اختیار کریں ، وہ جس چیز کو اختیار کریں گے اللہعَزَّوَجَلَّ اسی چیز کو پیدا کر دے گا، ان آیتوں میں یہ دلیل بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مجبورِ
محض نہیں بنایا، مختار بنایا ہے اور اس میں جبریہ کا بھی رد ہے۔
مضامین
سورۂ اَنعام کے
مضامین:
سورۂ اَنعام قرآنِ مجید
میں مذکور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے پہلی مکی سورت ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے
کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد ،جیسے اللہ
تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت ،ا س کی صفات اور اس کی قدرت کو انسان کی اندرونی
اور بیرونی شہادتوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے
شُبہات کے رد پر عقلی اور حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کئے جانے ،قیامت کے دن اعمال کاحساب ہونے اور اعمال کی جزاء ملنے کو دلائل سے ثابت
کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …زمین میں گھوم پھر
کر سابقہ لوگوں کی اجڑی بستیاں ،ویران گھر اور ان پر کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار دیکھ کر ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب
دی گئی ہے۔
(2) …جانور ذبح کرنے اور
ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانے کے احکام بیان کئے گئے اور اپنی طرف سے حلال جانوروں
کو حرام قرار دینے کا رد کیا گیا ہے ۔
(3) …والدین کے ساتھ
احسان کرنے، ظاہری اور باطنی بے حیائیوں سے بچنے، تنگدستی کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ
کرنے اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(4) … حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ
بیان کیا گیا اور آخر میں قرآن اور دین اسلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
مناسبت
سورۂ مائدہ کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ اَنعام کی اپنے سے
ما قبل سورت’’ مائدہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر87 میں
مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! ان
پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہ
نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔
اور سورۂ اَنعام میں یہ
خبر دی گئی کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چند (حلال) چیزوں کو(اپنی طرف سے ) حرام قرار دے دیا اور یہ
کہہ دیاکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے،
اور یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو (اپنی طرف سے) حرام قرار دے دیا تو وہ کفار کے مشابہ ہو جائیں
گے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الانعام، ص۸۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پوری سورۂ اَنعام ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل
ہوئی،اور انہی سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ سورۂ اَنعام کی6 آیتیں مدینہ منورہ میں
نازل ہوئیں اور باقی سورت ایک ہی مرتبہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔( خازن، تفسیر سورۃ الانعام، ۲ / ۲)
عربی میں مویشیوں کو
’’اَنعام‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کا نام ’’اَنعام‘‘ اس مناسبت سے رکھا گیا کہ اس
سورت کی آیت نمبر 136 اور138 میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو اپنے مویشیوں میں
بتوں کو حصہ دار ٹھہراتے تھے اور خود ہی چند جانوروں کو اپنے لئے حلال اور چند
جانوروں کو اپنے اوپر حرام سمجھنے لگے تھے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سورۂ
اَنعام نازل ہوئی اور اس کے ساتھ بلند آواز سے تسبیح کرتی ہوئی فرشتوں کی ایک
جماعت تھی جس سے زمین و آسمان کے کنارے بھر گئے، زمین ان فرشتوں کی وجہ سے ہلنے
لگی اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمْ ‘‘ کہا۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،
ذکر سورۃ الانعام، ۲ / ۴۷۰، الحدیث: ۲۴۳۳)