Home ≫ ur ≫ Surah Al Anam ≫ ayat 153 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ-وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖؕ-ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(153)
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا:اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے۔} یعنی یہاں مذکور آیتوں میں جو احکام تمہیں بیان کئے گئے ہیں یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو۔ احادیث میں ایک مثال کے ذریعے سیدھے راستے کے بارے میں سمجھایا گیا ہے، چنانچہ
حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے ایک خط کھینچا، دو اس کے دائیں اور دو بائیں جانب کھینچے، پھر اپنا ہاتھ درمیانے خط پر رکھ کر فرمایا ’’یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے۔پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی
’’ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ-وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ راہیں تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گی ۔‘‘ (ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب اتباع سنّۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۱۵، الحدیث: ۱۱)
حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک دن نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمارے سامنے ایک خط کھینچا ،پھر فرمایا ’’ یہ اللہ کا راستہ ہے ۔ پھر اس کے دائیں بائیں کچھ لکیریں کھینچیں اور فرمایا ’’ یہ مختلف راستے ہیں جن میں سے ہر راستے پر شیطان ہے جو اُدھر بلا رہا ہے۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی
’’ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ-وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ راہیں تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گی ۔‘‘ (سنن دارمی، باب فی کراہیۃ اخذ الرأی، ۱ / ۷۸، الحدیث: ۲۰۲)
سیدھا راستہ :
اس سے معلوم ہوا کہ عقائد کی درستی، عبادت کی ادائیگی، معاملات کی صفائی اور حقوق کا ادا کرنا سیدھا راستہ ہے۔ جو ان میں سے کسی میں کوتاہی کرتاہے وہ سیدھے راستے پر نہیں۔ عقائد، عبادات اور معاملات جسم اوردو بازوؤں کی طرح ہیں جن میں سے ایک کے بغیر اڑنا ناممکن ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ دفتر تین قسم کے ہیں۔ ایک دفتر وہ ہے کہ جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نہ بخشے گا۔ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہرانا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ‘‘(النساء:۴۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ نہ بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے۔
اور ایک دفتر وہ ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ چھوڑے گا نہیں ، وہ بندوں کے آپس کے ظلم ہیں حتّٰی کہ ان کے بعض کا بعض سے بدلہ لے گا اور ایک دفتر وہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ پروا نہیں کرتا، وہ بندوں کا اپنے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے درمیان حق تلفی ہے، تو یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد ہے، اگر چاہے اسے سزا دے اور اگر چاہے تو اس سے در گزر فرمائے۔ (شعب الایمان، التاسع والاربعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۵۲، الحدیث: ۷۴۷۳)
{ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ:اور دوسری راہوں پر نہ چلو۔} یہاں دوسرے راستوں سے مرادوہ راستے ہیں جو اسلام کے خلاف ہوں یہودیت ہو یا نصرانیت یا اور کوئی ملت۔ لہٰذا اگر تم اسلام کے خلاف راستے پر چلے تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے سے الگ ہوجاؤ گے ۔صوفیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ فرماتے ہیں کہ معاملات کی خرابی عبادات کی خرابی تک پہنچا دیتی ہے اور عبادات کی خرابی کبھی عقائد کی خرابی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ترکِ مستحب ترکِ سنت کا اور ترکِ سنت ترکِ فرض کا ذریعہ ہے چور کو پہلے دروازے پر ہی روکو۔