ترجمہ: کنزالایمان
یا کہو کہ اگر ہم پر کتاب اُترتی تو ہم ان سے زیادہ ٹھیک راہ پر ہوتے تو تمہارے پاس تمہارے رب کی روشن دلیل اور ہدایت او ر رحمت آئی تو اس سے زیادہ ظالم کون جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے اور ان سے منہ پھیرے عنقریب وہ جو ہماری آیتوں سے منہ پھیرتے ہیں ہم انہیں برے عذاب کی سزا دیں گے بدلہ ان کے منہ پھیرنے کا۔
ترجمہ: کنزالعرفان
یا (تا کہ تم یہ نہ) کہو کہ اگر ہم پر کتاب اُترتی تو ہم ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے تو تمہارے پاس تمہارے رب کی روشن دلیل اور ہدایت او ر رحمت آگئی ہے تو اس سے زیادہ ظالم کون جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے اور ان سے منہ پھیرے۔ عنقریب وہ لوگ جو ہماری آیتوں سے منہ پھیرتے ہیں ہم انہیں ان کے منہ پھیرنے کی وجہ سے برے عذاب کی سزا دیں گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ اَوْ تَقُوْلُوْا:یا کہو۔}
شانِ نزول: کفارِ عرب کی ایک جماعت نے
کہا تھا کہ یہود و نصارٰی پر توریت و انجیل نازل ہوئیں مگر وہ بے عقل ان کتابوں سے
ہدایت حاصل نہ کر سکے ہم اُن کی طرح خفیفُ العقل اور نادان نہیں ہیں ہماری عقلیں
صحیح ہیں اور ہماری عقل وذہانت اور فہم و فراست تو ایسی ہے کہ اگر ہم پر کتاب
اُترتی تو ہم ان سے زیادہ سیدھے راہ پر ہوتے۔ ان کے جواب میں یہ آیتِ کریمہ نازل
ہوئی۔ اور اس طرح ان کا یہ عذر بھی ختم فرما دیا گیا۔ (خازن، الانعام،
تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۷۱)
اس سے معلوم ہوا کہ صرف اپنی
عقل پر اعتماد نہ کرنا چاہیے بلکہ رب تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرنا ضروری ہے
کیونکہ یہ شیخی مارنے والے بھی کافر ہی رہے ایمان نہ لائے اس لئے کہ انہوں نے عقل
پر بھروسہ کیا۔
{ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ:تو اس سے زیادہ ظالم کون جو۔} یعنی جو نبی کے معجزات اور ان کی کتابوں کا انکار
کرتا ہے وہ سب سے بڑا ظالم ہے کیونکہ وہ اپنی
جان پر ظلم کرتا ہے کہ اسے دائمی عذاب کا مستحق بناتا ہے۔
مضامین
سورۂ اَنعام کے
مضامین:
سورۂ اَنعام قرآنِ مجید
میں مذکور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے پہلی مکی سورت ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے
کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد ،جیسے اللہ
تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت ،ا س کی صفات اور اس کی قدرت کو انسان کی اندرونی
اور بیرونی شہادتوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے
شُبہات کے رد پر عقلی اور حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کئے جانے ،قیامت کے دن اعمال کاحساب ہونے اور اعمال کی جزاء ملنے کو دلائل سے ثابت
کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …زمین میں گھوم پھر
کر سابقہ لوگوں کی اجڑی بستیاں ،ویران گھر اور ان پر کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار دیکھ کر ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب
دی گئی ہے۔
(2) …جانور ذبح کرنے اور
ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانے کے احکام بیان کئے گئے اور اپنی طرف سے حلال جانوروں
کو حرام قرار دینے کا رد کیا گیا ہے ۔
(3) …والدین کے ساتھ
احسان کرنے، ظاہری اور باطنی بے حیائیوں سے بچنے، تنگدستی کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ
کرنے اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(4) … حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ
بیان کیا گیا اور آخر میں قرآن اور دین اسلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
مناسبت
سورۂ مائدہ کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ اَنعام کی اپنے سے
ما قبل سورت’’ مائدہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر87 میں
مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! ان
پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہ
نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔
اور سورۂ اَنعام میں یہ
خبر دی گئی کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چند (حلال) چیزوں کو(اپنی طرف سے ) حرام قرار دے دیا اور یہ
کہہ دیاکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے،
اور یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو (اپنی طرف سے) حرام قرار دے دیا تو وہ کفار کے مشابہ ہو جائیں
گے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الانعام، ص۸۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پوری سورۂ اَنعام ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل
ہوئی،اور انہی سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ سورۂ اَنعام کی6 آیتیں مدینہ منورہ میں
نازل ہوئیں اور باقی سورت ایک ہی مرتبہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔( خازن، تفسیر سورۃ الانعام، ۲ / ۲)
عربی میں مویشیوں کو
’’اَنعام‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کا نام ’’اَنعام‘‘ اس مناسبت سے رکھا گیا کہ اس
سورت کی آیت نمبر 136 اور138 میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو اپنے مویشیوں میں
بتوں کو حصہ دار ٹھہراتے تھے اور خود ہی چند جانوروں کو اپنے لئے حلال اور چند
جانوروں کو اپنے اوپر حرام سمجھنے لگے تھے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سورۂ
اَنعام نازل ہوئی اور اس کے ساتھ بلند آواز سے تسبیح کرتی ہوئی فرشتوں کی ایک
جماعت تھی جس سے زمین و آسمان کے کنارے بھر گئے، زمین ان فرشتوں کی وجہ سے ہلنے
لگی اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمْ ‘‘ کہا۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،
ذکر سورۃ الانعام، ۲ / ۴۷۰، الحدیث: ۲۴۳۳)