banner image

Home ur Surah Al Anam ayat 29 Translation Tafsir

اَلْاَ نْعَام

Al Anam

HR Background

وَ قَالُوْۤا اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ(29)وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلٰى رَبِّهِمْؕ-قَالَ اَلَیْسَ هٰذَا بِالْحَقِّؕ-قَالُوْا بَلٰى وَ رَبِّنَاؕ-قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ(30)

ترجمہ: کنزالایمان اور بولے وہ تو یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے اور ہمیں اٹھنا نہیں۔ اور کبھی تم دیکھو جب اپنے رب کے حضور کھڑے کیے جائیں گے فرمائے گا کیا یہ حق نہیں ہے کہیں گے کیوں نہیں ہمیں اپنے رب کی قسم فرمائے گا تو اب عذاب چکھو بدلہ اپنے کفر کا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور انہوں نے کہا تھا کہ زندگی تو صرف دنیاوی زندگی ہی ہے اور ہمیں اٹھایا نہیں جائے گا۔ اور اگر تم دیکھو جب انہیں ان کے رب کی بارگاہ میں کھڑا کیا جائے گا تو وہ فرمائے گا: کیا یہ حق نہیں ؟ توکہیں گے: کیوں نہیں ، ہمیں اپنے رب کی قسم ۔ فرمائے گا تو اب اپنے کفر کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ قَالُوْا: اور انہوں نے کہاتھا۔} یہ ان کافروں کا مقولہ ہے جو قیامت کے منکر ہیں اور اس کا واقعہ یہ تھا کہ جب سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کو قیامت کے احوال اور آخرت کی زندگی، ایمانداروں اور فرمانبرداروں کے ثواب، کافروں اور نافرمانوں پر عذاب کا ذکر فرمایا تو کافر کہنے لگے کہ زندگی تو بس دنیا ہی کی ہے اور جب ہم مرنے کے بعد اس دنیا سے چلے جائیں گے تو ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۱۱) کافروں کا تو عقیدہ ہی یہ تھا کہ زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہے اور مرنے کے بعد کوئی اٹھایا نہیں جائے گااور اسی اعتقادکی بنا پر ان کی زندگی غفلت کا شکار تھی لیکن مسلمانوں پر بھی افسوس ہے کہ ان کا تو قطعی عقیدہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد لوگوں کو اٹھایا جائے گا، اعمال کا جواب دینا پڑے گا لیکن اس کے باوجود وہ غفلت میں پڑے ہیں ، یہ بڑی افسوس ناک صورت ہے چنانچہ اسی مفہوم میں بزرگوں نے بہت سی باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔حضرت ابو جعفررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس شخص پر بڑی حیرت ہے جو ہمیشگی کے گھر (جنت) کی تصدیق تو کرتا ہے لیکن کوشش دھوکے کے گھر (دنیا کو پانے اور اسے سنوارنے) کے لئے کرتا ہے۔ (کتاب الزہد لابن ابی الدنیا، ص۲۸، رقم: ۱۴)

            امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ایک بزرگ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ’’اس شخص پر تعجب ہے جو احسان کرنے والے کی معرفت کے بعد اس کی نافرمانی کرتا ہے اور شیطان لعین کی سرکشی کو جاننے کے بعد اس کی اطاعت کرتا ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب شرح عجائب القلب، بیان تفصیل مداخل الشیطان الی القلب، ۳ / ۴۷۔)

حضرت فضیل رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’مجھے اس شخص پر تعجب نہیں ہوتا جو عمارت بنا کر چھوڑ جاتا ہے بلکہ اس پر تعجب ہوتا ہے جو اس عمارت کو دیکھ کر عبرت حاصل نہیں کرتا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان تفصیل الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۹۲)

            حضرت وہیب مکی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’کسی شخص کے لئے یہ بات کیسے مناسب ہے کہ وہ دنیا میں ہنسے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے سامنے قیامت کے دن کی فریادیں ، گردشیں اور خوفناک مَناظر ہیں ، قریب ہے کہ سخت رعب اور خوف سے اس کے جسم کے جوڑ کٹ جائیں۔(تنبیہ المغترین، الباب الثانی فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم ظنہم بنفسہم الہلاک۔۔۔ الخ، ص۱۰۹)