ترجمہ: کنزالایمان
تم فرماؤ بھلا بتاؤ تو اگر تم پر اللہ کا عذاب آئے یا قیامت قائم ہو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے اگر سچے ہو۔
بلکہ اسی کو پکارو گے تو وہ اگر چاہے جس پر اسے پکارتے ہو اسے اٹھالے اور شریکوں کو بھول جاؤ گے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ، بھلا بتاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا تم پر قیامت آجائے توکیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر تم سچے ہو۔
بلکہ تم اسی (اللہ ) کو پکارو گے تو اگراللہ چاہے تو وہ مصیبت ہٹا دے جس کی طرف تم اسے پکارو گے اور تم شریکوں کو بھول جاؤ گے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی
آیت میں فرمایا گیا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ ان مشرکوں سے فرمائیں
کہ بھلا بتاؤ کہ اگر تم پر اللہعَزَّوَجَلَّ کا عذاب آجائے یا تم پر
قیامت آجائے توکیا اس وقت بھی اللہعَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی اور کو پکارو
گے؟ اور جن کو دنیا میں معبود مانتے تھے اُن سے حاجت روائی چاہو گے ؟اگر تماپنے اس دعویٰ
میں کہ معاذ اللہ بت معبود ہیں ، سچے ہو تو اس وقت انہیں پکارو مگر ایسا نہ کرو گے بلکہ تمام
ہولناکیوں اور تکلیفوں میں تم اللہعَزَّوَجَلَّ ہی کو پکارو گے تو اگراللہعَزَّوَجَلَّ چاہے تو تم سے وہ مصیبت ہٹادے جس کو دور کرنے کی طرف تم اسے پکارو گے
اور اگر وہ چاہے تو اس مصیبت کو دور نہ کرے اور اس وقت تم ان بتوں کو بھول جاؤ گے
جنہیں تم خدا عَزَّوَجَلَّ کا شریک قرار دیتے تھے اورجنہیں اپنے اعتقاد ِباطل میں تم معبود جانتے تھے
اور اُن کی طرف التفات بھی نہ کرو گے کیونکہ تمہیں معلوم ہے کہ وہ
تمہارے کام نہیں آسکتے۔
مضامین
سورۂ اَنعام کے
مضامین:
سورۂ اَنعام قرآنِ مجید
میں مذکور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے پہلی مکی سورت ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے
کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد ،جیسے اللہ
تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت ،ا س کی صفات اور اس کی قدرت کو انسان کی اندرونی
اور بیرونی شہادتوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے
شُبہات کے رد پر عقلی اور حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کئے جانے ،قیامت کے دن اعمال کاحساب ہونے اور اعمال کی جزاء ملنے کو دلائل سے ثابت
کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …زمین میں گھوم پھر
کر سابقہ لوگوں کی اجڑی بستیاں ،ویران گھر اور ان پر کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار دیکھ کر ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب
دی گئی ہے۔
(2) …جانور ذبح کرنے اور
ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانے کے احکام بیان کئے گئے اور اپنی طرف سے حلال جانوروں
کو حرام قرار دینے کا رد کیا گیا ہے ۔
(3) …والدین کے ساتھ
احسان کرنے، ظاہری اور باطنی بے حیائیوں سے بچنے، تنگدستی کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ
کرنے اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(4) … حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ
بیان کیا گیا اور آخر میں قرآن اور دین اسلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
مناسبت
سورۂ مائدہ کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ اَنعام کی اپنے سے
ما قبل سورت’’ مائدہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر87 میں
مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! ان
پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہ
نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔
اور سورۂ اَنعام میں یہ
خبر دی گئی کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چند (حلال) چیزوں کو(اپنی طرف سے ) حرام قرار دے دیا اور یہ
کہہ دیاکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے،
اور یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو (اپنی طرف سے) حرام قرار دے دیا تو وہ کفار کے مشابہ ہو جائیں
گے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الانعام، ص۸۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پوری سورۂ اَنعام ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل
ہوئی،اور انہی سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ سورۂ اَنعام کی6 آیتیں مدینہ منورہ میں
نازل ہوئیں اور باقی سورت ایک ہی مرتبہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔( خازن، تفسیر سورۃ الانعام، ۲ / ۲)
عربی میں مویشیوں کو
’’اَنعام‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کا نام ’’اَنعام‘‘ اس مناسبت سے رکھا گیا کہ اس
سورت کی آیت نمبر 136 اور138 میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو اپنے مویشیوں میں
بتوں کو حصہ دار ٹھہراتے تھے اور خود ہی چند جانوروں کو اپنے لئے حلال اور چند
جانوروں کو اپنے اوپر حرام سمجھنے لگے تھے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سورۂ
اَنعام نازل ہوئی اور اس کے ساتھ بلند آواز سے تسبیح کرتی ہوئی فرشتوں کی ایک
جماعت تھی جس سے زمین و آسمان کے کنارے بھر گئے، زمین ان فرشتوں کی وجہ سے ہلنے
لگی اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمْ ‘‘ کہا۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،
ذکر سورۃ الانعام، ۲ / ۴۷۰، الحدیث: ۲۴۳۳)