ترجمہ: کنزالایمان
تو جڑ کاٹ دی گئی ظالموں کی اور سب خوبیوں سراہا اللہ رب سارے جہان کا۔
ترجمہ: کنزالعرفان
پس ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اورتمام خوبیاں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا:تو ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی۔} ارشاد فرمایا کہ ایمان کی بجائے
کفر اختیار کرنے اور اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی بجائے گناہوں میں مصروف
ہونے کی وجہ سے ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور سب کے سب ہلاک کردیئے گئے،ان میں
سے کوئی باقی نہ چھوڑا گیا۔
{وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ:اورتمام خوبیاں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اس پر کہ اس نے دشمنوں کو ہلاک کیا اور ان کی
جڑ کاٹ دی ۔ اس آیت میں یہ بھی تعلیم ہے کہ لوگ ظالموں کی ہلاکت پر اللہ تعالیٰ کی حمد کریں اور اس کا شکر بجا لائیں۔ (تفسیر سمرقندی، الانعام، تحت الآیۃ:۴۵،۱ / ۴۸۵)
بے دینوں اور ظالموں کی
ہلاکت اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے:
اس
سے معلوم ہوا کہ گمراہوں ،بے دینوں اور ظالموں کی ہلاکت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اس پر شکر کرنا چاہئے۔ حضور
اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ کرامرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی سیرتِ مبارکہ میں اس کی کئی
مثالیں موجود ہیں چنانچہ
ابو
جہل کے قتل پر حضورِاقدس صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سجدۂ شکر ادا کیا ۔ (سیرت حلبیہ، باب غزوۃ بدر الکبری،۲ / ۲۳۶)
عاشورہ
کے دن نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے روزہ رکھنے کا حکم دیا کہ اس دن فرعون ہلاک ہوا۔ (مسلم، کتاب الصیام باب صوم یوم عاشوراء، ص۵۷۲، الحدیث:۱۲۸(۱۱۳۰))
حضرت
ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ نے یمامہ کی فتح
اور مسیلمہ کذاب کے مرنے کی خبر ملنے پر سجدۂ شکر کیا
اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ
اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے جب( خارجیوں کے درمیان)ذُو الثَّدِیَّہیعنی دو پستانوں والے مرد
کو مردہ پایا تو سجدہ ٔشکر کیا۔ (فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، باب سجود السہو،۱ / ۴۵۷)
لہٰذا
مؤمن کی وفات پر ’’ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھئے اور موذی
کافر کی موت پر’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ‘‘ پڑھئے۔
مضامین
سورۂ اَنعام کے
مضامین:
سورۂ اَنعام قرآنِ مجید
میں مذکور سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے پہلی مکی سورت ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے
کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد ،جیسے اللہ
تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت ،ا س کی صفات اور اس کی قدرت کو انسان کی اندرونی
اور بیرونی شہادتوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ وحی اور رسالت کے ثبوت اور مشرکین کے
شُبہات کے رد پر عقلی اور حِسی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کئے جانے ،قیامت کے دن اعمال کاحساب ہونے اور اعمال کی جزاء ملنے کو دلائل سے ثابت
کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …زمین میں گھوم پھر
کر سابقہ لوگوں کی اجڑی بستیاں ،ویران گھر اور ان پر کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار دیکھ کر ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب
دی گئی ہے۔
(2) …جانور ذبح کرنے اور
ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانے کے احکام بیان کئے گئے اور اپنی طرف سے حلال جانوروں
کو حرام قرار دینے کا رد کیا گیا ہے ۔
(3) …والدین کے ساتھ
احسان کرنے، ظاہری اور باطنی بے حیائیوں سے بچنے، تنگدستی کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ
کرنے اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(4) … حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ
بیان کیا گیا اور آخر میں قرآن اور دین اسلام کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
مناسبت
سورۂ مائدہ کے ساتھ
مناسبت:
سورۂ اَنعام کی اپنے سے
ما قبل سورت’’ مائدہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر87 میں
مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! ان
پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ قرار دوجنہیں اللہ
نے تمہارے لئے حلال فرمایا ہے اور حد سے نہ بڑھو۔
اور سورۂ اَنعام میں یہ
خبر دی گئی کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چند (حلال) چیزوں کو(اپنی طرف سے ) حرام قرار دے دیا اور یہ
کہہ دیاکہ اسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے،
اور یہ خبر دینے سے مقصود مسلمانوں کو اس بات سے ڈرانا ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو (اپنی طرف سے) حرام قرار دے دیا تو وہ کفار کے مشابہ ہو جائیں
گے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الانعام، ص۸۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ پوری سورۂ اَنعام ایک ہی رات میں مکہ مکرمہ میں نازل
ہوئی،اور انہی سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ سورۂ اَنعام کی6 آیتیں مدینہ منورہ میں
نازل ہوئیں اور باقی سورت ایک ہی مرتبہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔( خازن، تفسیر سورۃ الانعام، ۲ / ۲)
عربی میں مویشیوں کو
’’اَنعام‘‘ کہتے ہیں اور اس سورت کا نام ’’اَنعام‘‘ اس مناسبت سے رکھا گیا کہ اس
سورت کی آیت نمبر 136 اور138 میں ان مشرکین کا رد کیا گیا ہے جو اپنے مویشیوں میں
بتوں کو حصہ دار ٹھہراتے تھے اور خود ہی چند جانوروں کو اپنے لئے حلال اور چند
جانوروں کو اپنے اوپر حرام سمجھنے لگے تھے۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سورۂ
اَنعام نازل ہوئی اور اس کے ساتھ بلند آواز سے تسبیح کرتی ہوئی فرشتوں کی ایک
جماعت تھی جس سے زمین و آسمان کے کنارے بھر گئے، زمین ان فرشتوں کی وجہ سے ہلنے
لگی اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے تین مرتبہ ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمْ ‘‘ کہا۔ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،
ذکر سورۃ الانعام، ۲ / ۴۷۰، الحدیث: ۲۴۳۳)