Home ≫ ur ≫ Surah Al Anam ≫ ayat 55 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ(55)
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ:اور اسی طرح ہم آیتوں کو مفصل بیان فرماتے ہیں۔}یعنی اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس طرح ہم نے آپ کے سامنے ا س سورت میں اپنی وحدانیت کے دلائل تفصیل کے ساتھ بیان کئے ہیں ہم اسی طرح اپنی حجتوں اور دلائل کومفصل بیان فرماتے ہیں اور ہم قرآنِ مجید میں اطاعت گزاروں ،گناہ کے بعد توبہ کر لینے والوں کے اوصاف اور گناہ پر اڑے رہنے والوں کی صفات بیان کرتے ہیں تاکہ حق ظاہر ہو جائے اور اس پر عمل کیا جائے اور اس لئے یہ چیزیں بیان کرتے ہیں کہ مجرموں کاراستہ اور ان کا طریقہ واضح ہو جائے تاکہ ا س سے بچا جائے ۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۵، ۲ / ۲۰، روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۳۹، ملتقطاً)
اخروی کامیابی تک پہنچانے و الے راستے پر چلنے کی ترغیب:
اس سے معلوم ہو اکہ آدمی کو چاہئے کہ وہ فلاح و کامیابی کے راستے پر چلے اور وہاں تک پہنچے جہاں نیک لوگ پہنچے اور اس کا سب سے بہترین راستہ فوری طور پر اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا اور آئندہ کے لئے نیک اعمال کرنا ہے۔امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’زندگی کی ہر گھڑی بلکہ ہر سانس ایک نفیس جوہر ہے جس کا کوئی بدل نہیں ،وہ اس بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ تجھے ابدی سعادت تک پہنچا دے اور دائمی بدبختی سے بچا لے ا س لئے ا س سے زیادہ نفیس جوہر اور کیا ہو سکتا ہے، اگر تم اسے غفلت میں ضائع کر دو گے توواضح نقصان اٹھاؤ گے اور اگر اسے گناہ میں صرف کرو گے تو واضح طور پر ہلاک ہو جاؤ گے۔ اب اگر تم ا س مصیبت پر نہیں روتے تو یہ تمہاری جہالت ہے اور جہالت کی مصیبت تمام مصیبتوں سے بڑ ھ کر ہے۔ (افسوس) لوگ غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں ،جب موت آئے گی تووہ جاگ جائیں گے ،اس وقت ہر مفلس کو اپنے اِفلاس کا اور ہر مصیبت زدہ کو اپنی مصیبت کا علم ہو جائے گا لیکن ا س وقت اس کا ازالہ نہیں ہو سکے گا۔( احیاء علوم الدین، کتاب التوبۃ، الرکن الاول فی نفس التوبۃ، بیان انّ وجوب التوبۃ عام فی الاشخاص۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۵)
مزید فرماتے ہیں ’’جب تم ان تین دہشت ناک باتوں پر ہمیشگی اختیار کرو گے اور رات دن کے ہر حصے میں ان کی یاد تازہ کرتے رہو گے تو تمہیں گناہوں سے ضرور سچی اور خالص توبہ نصیب ہو جائے گی:
(1)…گناہوں کی حد درجہ برائی بیان کرنا۔
(2)…اللہ تعالیٰ کی سزا کی شدت، دردناک عذاب، اس کی ناراضی اور ا س کے غضب و جلال کاذکر کرنا۔
(3)…اللہ تعالیٰ کے غضب و عذاب کی سختی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی کمزوری اور ناتوانی کو یاد کرنا کہ جو شخص سورج کی تپش، سپاہی کے تھپڑ اور چیونٹی کے ڈنک کو برداشت نہیں کر سکتا تو وہ نارِ جہنم کی تپش، عذاب کے فرشتوں کے کوڑوں کی مار، لمبی گردنوں والے بختی اونٹوں کی طرح لمبے اور زہریلے سانپوں کے ڈنک اور خچر جیسے بچھوؤں کے ڈنک کیسے برداشت کر سکے گا۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الثانیۃ: عقبۃ التوبۃ، ص۳۳)