Home ≫ ur ≫ Surah Al Anam ≫ ayat 65 ≫ Translation ≫ Tafsir
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍؕ-اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ(65)
تفسیر: صراط الجنان
{ هُوَ الْقَادِرُ: وہی قادر ہے۔}اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی ایک اور دلیل بیان کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں سے فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ تمہارے شرک کی وجہ سے تم پر تمہارے اوپر سے عذاب نازل فرمادے جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم، حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم اور اصحابِ فیل یعنی ابرہہ کے لشکر کے ساتھ کیا گیا، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے عذاب بھیجے جیسے فرعون کو غرق کیا گیا اور قارون کو زمین میں دھنسا دیا گیا، یا مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کر کے آپس میں لڑا دے اور تمہیں ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے۔ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ دیکھیں کہ ہم کس طرح قرآن مجید میں بار بار مختلف انداز سے وعدہ اور وعید کی آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ لوگ سمجھ جائیں اور اپنی سرکشی و عناد سے باز آ جائیں۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۶۵، ۵ / ۲۰، روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۴۷، ملتقطاً)
یاد رہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنتِ جاریہ ہے کہ وہ (اپنی نافرمانی کرنے کی سزا میں ) مسلمانوں کو کافروں سے اور کافروں کو مسلمانوں سے لڑوا دیتا ہے اسی طرح کافروں کو کافروں سے اور مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑوا دیتا ہے جیسا کہ ہمارے زمانے میں اس کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ’’ جب آیت کا یہ حصہ نازل ہوا کہ’’ وہ قادر ہے تم پر عذاب بھیجے تمہارے اوپر سے‘‘ تو سرکارِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا، تیری ہی پناہ مانگتا ہوں اور جب یہ حصہ نازل ہوا کہ’’ یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے‘‘ تو فرمایا، میں تیری ہی پناہ مانگتا ہوں اور جب یہ حصہ نازل ہوا’’ یا تمہیں لڑوا دے مختلف گروہ کرکے اور ایک کو دوسرے کی سختی چکھائے‘‘ تو فرمایا: یہ آسان ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب قل ہو القادر علی ان یبعث علیکم۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۲۱، الحدیث: ۴۶۲۸)
اور صحیح مسلم کی حدیث شریف میں ہے کہ ایک روز رحمت ِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسجدِ بنی معاویہ میں دو رکعت نماز ادا فرمائی اور اس کے بعد طویل دُعا کی پھر صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے تین سوال کئے ان میں سے صرف دو قبول فرمائے گئے ۔ ایک سوال تو یہ تھا کہ’’ میری اُمّت کو قحط عام سے ہلاک نہ فرمائے‘‘ یہ قبول ہوا۔دوسرا یہ تھا کہ’’ انہیں غرق کرکے عذاب نہ دے‘‘یہ بھی قبول ہوا۔ تیسرا سوال یہ تھا کہ’’ ان میں باہم جنگ و جدال نہ ہو ‘‘یہ قبول نہیں ہوا ۔ (مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ہلاک ہذہ الامۃ بعضہم ببعض، ص۱۵۴۴، الحدیث: ۲۰(۲۸۹۰))