Home ≫ ur ≫ Surah Al Anbiya ≫ ayat 104 ≫ Translation ≫ Tafsir
یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ كَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِؕ-كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗؕ-وَعْدًا عَلَیْنَاؕ-اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْنَ(104)
تفسیر: صراط الجنان
{یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ:یاد کروجس دن ہم آسمان کو لپیٹیں گے۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ جن لوگوں سے بھلائی کا وعدہ ہو چکا انہیں اس دن سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی جس دن ہم آسمان کواس طرح لپیٹیں گے جیسے سجل فرشتہ بندے کی موت کے وقت اس کے نامہ ِاعمال کو لپیٹتا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جن لوگوں سے بھلائی کا وعدہ ہو چکا فرشتے ا س دن ان کا استقبال کریں گے جس دن ہم آسمان کواس طرح لپیٹیں گے جیسے سجل فرشتہ بندے کی موت کے وقت اس کے نامہ ِاعمال کو لپیٹتا ہے۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ یاد کروجس دن ہم آسمان کواس طرح لپیٹیں گے جیسے سجل فرشتہ بندے کی موت کے وقت اس کے نامہ ِاعمال کو لپیٹتا ہے۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۸ / ۱۹۱، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ص۲۷۷، ملتقطاً)
سِجِلّ کا معنی:
سجل سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ، ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ سجل تیسرے آسمان پر موجود اس فرشتے کا نام ہے جس تک بندوں کی موت کے بعد ان کے اعمال نامے پہنچائے جاتے ہیں اور وہ فرشتہ ان اعمال ناموں کو لپیٹ دیتا ہے، چنانچہ ابو حیان محمد اندلسی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَااور مفسرین کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ سجل ایک فرشتہ ہے ،جب اس تک بندوں کے نامہِ اعمال پہنچائے جاتے ہیں تو وہ انہیں لپیٹ دیتا ہے۔( البحر المحیط، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۶ / ۳۱۷)
{ كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗ:ہم اسے دوبارہ اسی طرح لوٹا دیں گے جس طرح ہم نے پہلے بنایا تھا ۔} یعنی ہم نے جیسے پہلے انسان کو عدم سے بنایا تھا ویسے ہی پھر معدوم کرنے کے بعد دوبارہ پیدا کردیں گے، یا اس کے یہ معنی ہیں کہ جیسا اسے ماں کے پیٹ سے برہنہ اورغیر ختنہ شدہ پیدا کیا تھا ایسا ہی مرنے کے بعد اُٹھائیں گے۔( جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ص۲۷۷، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۳ / ۲۹۶، ملتقطاً)
اَنبیاء، صحابہ اور اولیاء کا حشر لباس میں ہو گا:
اس آیت کی دوسری تفسیر سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن لوگوں کا حشر ایسے ہو گا کہ ان کے بدن ننگے ہوں گے اور ان کا ختنہ بھی نہیں ہوا ہو گا۔ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اے لوگو! تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور بے ختنہ کئے جمع کئے جاؤ گے۔( مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب فناء الدنیا وبیان الحشر یوم القیامۃ، ص۱۵۳۰، الحدیث:۵۸(۲۸۶۰))
البتہ یہاں یہ یاد رہے کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ قیامت کے دن اس حال سے محفوظ ہوں گے اور ان کا حشر لباس میں کیا جائے گا۔ جیسا کہ مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث کے تحت ارشاد فرماتے ہیں :اس فرمانِ عالی میں اِنَّکُمْ فرما کر بتایا گیا کہ تم عوام لوگ اس حالت میں اُٹھو گے : ننگے بدن، ننگے پاؤں ، بے ختنہ، مگر تمام انبیاءِکرام اپنے کفنوں میں اٹھیں گے حتّٰی کہ بعض اولیاء اللہ بھی کفن پہنے اٹھیں گے تاکہ ان کا ستر کسی اور پر ظاہر نہ ہو۔ جامع صغیر کی روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا کہ میں قبر انور سے اُٹھوں گا اور فوراً مجھے جنتی جوڑا پہنا دیا جاوے گا ۔ لہٰذا یہاں اس فرمان عالی سے حضور انور صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَ سَلَّمَ بلکہ تمام انبیاء ،بعض اولیاء مُستَثنیٰ ہیں ۔( مراٰۃ المناجیح ، حشر کابیان، پہلی فصل، ۷ / ۲۹۰، تحت الحدیث: ۵۲۹۳)
اور فقیہ اعظم مفتی ابو الخیر نورُ اللہ نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ یہ حدیث پاک ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : یہ خطاب امت کو ہے جس کاظاہر یہ ہے کہ حضرات انبیاءِکرام سب مُستَثنیٰ ہیں ،اوروہ سب بِفَضْلِہ تعالیٰ لباس میں ہونگے، ہاں تشریفی خِلعتیں بھی علیٰ حسب ِالمدارج ان حضرات کیلئے وارد ہیں (عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ) بہرحال اس حدیث سے ثابت ہورہا ہے کہ امتی ننگے ہوں گے۔(فتاوی نوریہ، کتاب العقائد، ۵ / ۱۲۵)
دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :آیاتِ مُتَکاثِرہ اور اَحادیثِ مُتَواترہ سے واضح ہوتا ہے کہ حضرات صحابۂ کرام اور اولیاءِ عظام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کا حشر بھی لباس میں ہوگا کہ یہ سب حضرات مُنْعَم عَلَیہم ہیں اور ان کے لئے حضرات ِانبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مَعِیَّت ورفاقتِ خاصہ بَحکمِ قرآن کریم صراحۃً ثابت ہے۔ پ 5 ع6 میں ہے ’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا‘‘اس انعام ومعیت ورفاقت سے ہی واضح ہورہا ہے کہ وہ بھی انبیاءِکرام کی معیت میں لباس میں ہوں گے بالخصوص جبکہ یہ حضرات ہیں ہی صدیقین یاشہدا سے یا صالحین۔(فتاوی نوریہ، کتاب العقائد، ۵ / ۱۲۹)
{وَعْدًا عَلَیْنَا:یہ ہمارے اوپر ایک وعدہ ہے۔} یعنی تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کرنے کی طرح دوبارہ پیدا کرنا ہمارے اوپر ایک وعدہ ہے اور اسے ہم ضرور پورا کریں گے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۵ / ۵۲۶)