Home ≫ ur ≫ Surah Al Anbiya ≫ ayat 23 ≫ Translation ≫ Tafsir
لَا یُسْــٴَـلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ هُمْ یُسْــٴَـلُوْنَ(23)
تفسیر: صراط الجنان
{لَا یُسْــٴَـلُ عَمَّا یَفْعَلُ: اللہ سے اس کام کے متعلق سوال نہیں کیا جاتا جو وہ کرتا ہے۔}یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت وشان یہ ہے کہ وہ جو کام کرتا ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے پوچھا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ حقیقی مالک ہے، جو چاہے کرے ، جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلت دے، جسے چاہے سعادت دے اورجسے چاہے بدبخت کرے، وہ سب کا حاکم ہے اور کوئی اس کا حاکم نہیں جو اس سے پوچھ سکے۔( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۷۱۳، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۲۷۴، ملتقطاً)
یہاں پوچھنے سے مراد سرزنش اور حساب کا پوچھنا ہے یعنی کسی مخلوق کی جرأت نہیں کہ رب عَزَّوَجَلَّ سے عتاب کی پوچھ گچھ کرے بلکہ رب تعالیٰ ان سے پوچھ گچھ کرے گا۔البتہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اطمینانِ قلب یاکشف ِحقیقت کے لیے سوال کرسکتے ہیں جیساکہ قرآنِ مجید ،فرقانِ حمید میں ہی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کااطمینانِ قلب کے لیے مُردوں کوزندہ کرنے کاسوا ل کرنا منقول ہے یا فرشتوں نے رب تعالیٰ سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش کی حکمت پوچھی تھی۔البتہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ سوال اگرچہ حسنِ نیت سے ہولیکن کسی دوسری حکمت کی وجہ سے مُطْلَقاً ہی سوال سے منع کردیا جاتا ہے جیسا کہ اس کے متعلق بھی روایات موجود ہیں ۔
بد ترین اعتراضات اور ان کا انجام:
یاد رہے کہ سب سے بد ترین اعتراض یہ ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کے کسی فعل پر اعتراض کرے ،جیسے شیطان نے اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مخلوق یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اعتراض کیا تواس کی تمام تر عبادت و ریاضت اور مقام و مرتبے کے باوجودبارگاہ ِ الٰہی سے اسے مَردُود و رسوا کر کے نکال دیا گیا، جب اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی مخلوق پر اعتراض کا یہ انجام ہے تو جو اللہ تعالیٰ کی شان اور ا س کے افعال وصفات پر اعتراض کرنے کی جرأت کرے گا اس کا کیا حال ہو گا۔
اسی طرح نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اعتراض کرنا بھی بہت بد ترین ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی خواہش سے کچھ کہتے ہیں نہ کرتے ہیں بلکہ جو کہتے اور کرتے ہیں سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تو آپ پر اعتراض کرنا اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرنا ہے اور اس میں ہلاکت و بربادی ہے،جبکہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور بزرگ علماء پر اعتراض کرنا خیر و بھلائی سے محروم کر دیتا ہے ، ان کی صحبت کی برکت اور علم میں اضافہ ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ تو اعتراض کرنے والوں کا دُنْیَوی انجام ہے اور آخرت میں ان کا حال یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ان سے کلام فرمائے گا نہ ان کی طرف رحمت کی نظر فرمائے گا اور ان کے لئے جہنم کا دردناک عذاب ہو گا۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۵ / ۴۶۵-۴۶۶، ملخصاً)
{وَ هُمْ یُسْــٴَـلُوْنَ:اور لوگوں سے سوال کیا جائے گا۔}ارشاد فرمایا کہ لوگوں سے ان کے کاموں کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور قیامت کے دن ان سے کہا جائے گا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟ کیونکہ سب اس کے بندے اوراس کی ملکیت ہیں اور سب پر اس کی اطاعت وفرمانبرداری لازم ہے۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۲۷۴)
اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی ایک اور دلیل بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں تو ان میں سے کوئی خدا کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ ایک ہی چیز مالک اور مملوک نہیں ہو سکتی۔