Home ≫ ur ≫ Surah Al Anbiya ≫ ayat 30 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَاؕ-وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّؕ-اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ(30)
تفسیر: صراط الجنان
{اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی شانِ قدرت اور شانِ تخلیق کا بیان ہے اور اسی میں عقیدہ ِشرک کی تردید بھی ہے کہ جب ان چیزوں کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کاکوئی شریک نہیں توعبادت میں اس کاکوئی شریک کیسے ہوسکتاہے ؟ چنانچہ ارشاد فرمایاکہ کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے تو ہم نے انہیں کھول دیا اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا فرمایا تو ان روشن نشانیوں کے باوجود کیا مشرکین ایمان نہیں لائیں گے؟( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۸ / ۱۳۶، روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۴۷۰-۴۷۱، ملتقطاً)
آسمان و زمین ملے ہوئے ہونے سے کیا مراد ہے؟
اس آیت میں فرمایا گیا کہ آسمان و زمین ملے ہوئے تھے،اس سے ایک مراد تویہ ہے کہ ایک دوسرے سے ملا ہوا تھا ان میں فصل و جدائی پیدا کرکے انہیں کھولا گیا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ آسمان اس طور پربند تھا کہ اس سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین اس طور پربند تھی کہ اس سے نباتات پیدا نہیں ہوتی تھیں ، تو آسمان کا کھولنا یہ ہے کہ اس سے بارش ہونے لگی اور زمین کا کھولنا یہ ہے کہ اس سے سبزہ پیدا ہونے لگا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۷۵)
اس معنی کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے، چنانچہ حلیۃ الاولیاء میں ہے کہ ایک شخص حضرت ِعبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے پاس آیا اور آسمانوں اور زمین کے بارے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا‘‘کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ’’حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھ لو، پھر جو وہ جواب دیں مجھے بھی بتانا۔ وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے پاس گیا اور ان سے یہی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: ہاں آسمان ملا ہوا تھا اس سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین بھی ملی ہوئی تھی کوئی چیز نہ اگاتی تھی پھر جب اللہ تعالیٰ نے زمین پرمخلوق کو پیدا کیا تو آسمان کو بارش کے ساتھ اور زمین کونباتات کے ساتھ پھاڑ دیا۔ وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے پاس واپس آیا اور انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کاجواب سنایا تو حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا ’’ بے شک حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو علم عطا کیا گیا ہے، انہوں نے سچ اور صحیح فرمایا ہے، وہ بالکل اسی طرح تھے۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، عبد اللہ بن عباس، ۱ / ۳۹۵، روایت نمبر ۱۱۲۸)
{وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ:اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی ۔} ہر جاندار چیز کو پانی سے بنانے سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں : (1) اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کو جانداروں کی حیات کاسبب بنایاہے ۔ (2) اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر جاندار پانی سے پیدا کیا ہوا ہے۔ (3) پانی سے نطفہ مراد ہے۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۲۷۵-۳۷۶)
{اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ:تو کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟} اس سے مراد یہ ہے کہ کیا وہ ایسا نہیں کریں گے کہ ان دلائل میں غور و فکر کریں اور اِس کے ذریعے اُس خالق کو جان لیں جس کا کوئی شریک نہیں اور شرک کا طریقہ چھوڑ کر اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں ۔( تفسیر کبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۳۰، ۸ / ۱۳۸)
اس آیت ِمبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ دور کے تمام سیکولر اور مُلحد مفکّرین کو چاہئے کہ وہ ان دلائل میں غورو فکر کریں جو خدا کے موجود ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور خدا کے موجود نہ ہونے کا نظریہ چھوڑ کراس خدا پر ایمان لے آئیں جو اس کائنات کو پیدا کرنے والااور اس کے نظام کو چلانے والا ہے۔