Home ≫ ur ≫ Surah Al Anbiya ≫ ayat 46 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَىٕنْ مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَیَقُوْلُنَّ یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(46)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَىٕنْ مَّسَّتْهُمْ:اور اگر انہیں چھو جائے۔} اس سے پہلی آیت میں بیان ہوا کہ عذاب آنے کی خبر سن کرکافروں پر کوئی اثر نہ ہوا اور یہاں فرمایا کہ جب عذاب آ جائے گاتو پھر انہیں پتہ چلے گا کہ انہیں کتنی جلدی اثر ہوتا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا معمولی حصہ پہنچ جائے تو اس وقت یہ ضرور پکاریں گے کہ ہائے ہم برباد ہو گئے ،ہم ہلاک ہو گئے ،بے شک ہم نبی کی بات پر توجہ نہ دے کر اور ان پر ایمان نہ لا کر اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے۔( ابوسعود، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۴۲۰، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۷۱۷-۷۱۸، ملتقطاً)
غفلت و بدبختی کا شکار لوگوں کا حال:
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ غفلت و بدبختی کا شکار لوگ دنیا میں انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تنبیہ اور اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے وعظ سے نصیحت حاصل نہیں کرتے یہاں تک کہ موت کے بعد انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب کے آثار میں سے کوئی اثر پہنچے، کیونکہ ابھی لوگ سو رہے ہیں اور جب انہیں موت آئے گی تو یہ بیدار ہو جائیں گے ،پھر یہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے اور اپنی جانوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے ہائے بربادی، ہائے ہلاکت پکاریں گے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور ا س کی ناراضی کے اسباب سے بچے اور رحمت و نجات کے دروازے کی طرف آئے ، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور پرہیز گاری کا راستہ اختیار کرے اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے سے بچے۔(روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۶، ۵ / ۴۸۵)