ترجمہ: کنزالایمان
اور بیشک ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے اس کی نیک راہ عطا کردی اور ہم اس سے خبردار تھے۔
جب اس نے اپنے باپ اور قوم سے کہایہ مورتیں کیا ہیں جن کے آگے تم آسن مارے ہو۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور بیشک ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اس کی سمجھداری دیدی تھی اور ہم ا سے جانتے تھے ۔
یاد کرو جب اس نے اپنے باپ اوراپنی قوم سے فرمایا: یہ مجسمے کیا ہیں جن کے آگے تم جم کر بیٹھے ہوئے ہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ:اور بیشک ہم نے ابراہیم کو دیدی تھی۔} انبیاءِکرام
عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات
میں سے یہاں دوسرا واقعہ بیان کیا جارہا ہے اور یہ حضرت
ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کا واقعہ ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کو ان کی ابتدائی عمر میں بالغ ہونے سے پہلے ہی ان کی نیک راہ عطا کر دی
تھی اور ہم ان کے بارے میں جانتے تھے کہ وہ ہدایت و نبوت کے اہل ہیں ۔( تفسیرکبیر، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۱،
۸ / ۱۵۲، خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۲۷۹، ملتقطاً)
{اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ:یاد کرو جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا۔} یعنی وہ وقت یاد کریں جب
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے (عرفی) باپ اور اپنی قوم سے فرمایا: درندوں پرندوں اور انسانوں کی صورتوں کے بنے ہوئے یہ
مجسمے کیا ہیں جن کے آگے تم جم کر بیٹھے
ہوئے ہو اور ان کی عبادت میں مشغول ہو؟( مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۲،
ص۷۱۸-۵۱۹)
سورت کا تعارف
سورۂ
انبیاء کا تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ انبیاء مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔(خازن، تفسیر سورۃ
الانبیاء، ۳ / ۲۷۰)
رکوع اورآیات
کی تعداد:
اس میں 7رکوع اور112آیتیں ہیں ۔
’’انبیاء ‘‘نام رکھنے کی
وجہ :
اس سورت میں بکثرت انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کاذکرہے مثلاً حضرت موسیٰ،حضرت عیسیٰ ،حضرت ہارون ، حضرت لوط، حضرت
ابراہیم عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور بالخصوص سرکارِ دو عالَم صَلَّیاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر
ہے، اسی وجہ سے اس سورت کانام ’’سُوْرَۃُ الْاَنْبِیَاء‘‘ ہے۔
مضامین
سورۂ
اَنبیاء کے مَضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں اسلام کے بنیادی
عقائد جیسے توحید،نبوت و رسالت،قیامت کے دن
دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزاء و سزا ملنے کو دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا
ہے اور ا س سورت میں یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں :
(1) …اس کی ابتداء میں قیامت کا وقوع اور
لوگوں کا حساب قریب ہونے اور لوگوں کے حساب کی سختیوں اور دیگر چیزوں سے غافل ہونے کا ذکر کیا گیا اور یہ بیان کیا
گیا ہے کہ لوگ قرآن سننے سے اِعراض کرتے ہیں اور دُنْیَوی زندگی کی لذتوں سے دھوکہ کھائے
بیٹھے ہیں ۔
(2) …مکہ کے مشرکین کی طرف سے نبی کریم صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنے کا سبب بیان کیا گیا کہ وہ آپ صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھی
اپنی طرح کا عام بشر سمجھتے ہیں اس لئے وہ
لوگ آپ صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان
نہیں لاتے ،نیز ان کے اس نظریے کا رد کیا
گیا کہ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کوئی وحی وغیرہ نہ اترتی تھی بلکہ وہ صرف عام بشر تھے جو کھاتے
پیتے اور بازاروں میں چلتے تھے،پھر انہیں بتایاگیا کہ سابقہ امتیں اپنے اَنبیاء اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کو جھٹلانے کی وجہ سے تباہ و برباد کر دیں گئیں تو
کفارِ مکہ کو بھی ڈرنا چاہئے کہ کہیں ان
کی طرح انہیں بھی ہلاک نہ کر دیاجائے۔
(3) …کفار ِمکہ نے مطالبہ کیا کہ نبی کریم صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سابقہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی طرح اپنی صداقتپر دلالت کرنے والی کوئی نشانی لائیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کیا اور بیان فرمایا کہ ان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات
عارضی تھے اور میرے حبیب صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قرآن کی صورت میں جو معجزہ لے کر
آئے ہیں یہ تا قیامت باقی رہنے والا اور آپ صَلَّیاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصال
کے بعد بھی آپ صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت
کی دلیل ہے تو کیا ان کی صداقت کے لئے کفار کو یہ معجزہ کافی نہیں ۔
(4) …کفار فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے ،ان کے ا س عقیدے کا رد کیا گیاکہ
فرشتے تو اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار اور عبادت گزار مخلوق ہے۔
(5) … اللہ تعالیٰ نے
اپنی وحدانیت اور معبود ہونے پر مختلف دلائل ذکر فرمائے جیسے زمین و آسمان کی
پیدائش،دن اور رات کے سلسلے کو قائم کرنا اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیت کی دلیل ہے ،اسی طرح
وحدانیت پر یہ دلیل قائم فرمائی کہ اگر اللہ کے ساتھ
کوئی دوسرا خدا ہوتا تو کائنات کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔
(6) …انہی آیات کے ضمن میں حضرت موسیٰ، حضرت ہارون، حضرت ابراہیم، حضرت
لوط، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت نوح، حضرت داؤد، حضرت سلیمان،حضرت ایوب، حضرت
اسماعیل،حضرت ادریس،حضرت ذوالکفل، حضرت یونس، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات
بیان فرمائے گئے۔
(7) …ان واقعات کو بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا کہ سب انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہی ایک
مقصد تھا کہ وہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیں
۔ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے
والوں کو اچھی جزاء کی بشارت سناکر مطمئن
کریں اور یہ بیان کردیں کہ دنیا میں عذاب یافتہ امتیں آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف ضرور لوٹیں گی اور جہنم کے عذاب میں مبتلا ہوں گی۔
(8) …قیامت قائم ہونے کی ایک علامت بیان کی گئی کہ وہ دیوار
ٹوٹ جائے گی جس نے یاجوج اور ماجوج کوروک کر رکھا ہوا ہے۔
(9) …قیامت کے دن کی ہولناکیاں اور وہ شدید عذاب بیان کیا گیا جس کا سامنا کفار
کریں گے اور یہ ذکر کیا گیا کہ کفار اور
ان کے باطل معبود جہنم کا ایندھن بنیں گے،اس زمین کو دوسری زمین سے بدل دیا جائے
گا،آسمانوں کو لپیٹ دیا جائے گا ، نیک
لوگ ابدی نعمتوں سے اپنا حصہ پائیں گے اور جنت میں اپنی اپنی زمین کے وارث ہوں گے۔
(10) …اس سورت کے آخر میں بیان کیا گیا کہ
سیّد المرسَلین صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئے ہیں اور ان کی
طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ معبود صرف اللہ تعالیٰ ہے اورا س کا کوئی
شریک نہیں ،وہ اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لائیں اور لوگوں کو قریب آنے والے عذاب اور حتمی طور پر واقع
ہونے والی قیامت سے ڈرائیں اور یہ بتا دیں
کہ انہیں مہلت ملنا اور عذاب میں تاخیر ہونا ایک امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّیاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے
دشمنوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا اورکفار کی تہمتوں اور بہتانوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مددگار
ہے۔
مناسبت
سورۂ طٰہٰ
کے ساتھ مناسبت:
سورۂ انبیاء کی اپنے سے
ماقبل سورت’’طٰہٰ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ طٰہٰ کے آخر میں قیامت کے آنے سے خبردار کیا گیا تھا اور سورۂ
انبیاء کی ابتداء میں بھی قیامت کے آنے
سے خبردار کیا گیاہے۔ اسی طرح سورۂطٰہٰ
میں یہ بیان کیا گیا تھاکہ دنیا کی زیب و
زینت اور آرائش کی طرف نظر نہیں کرنی
چاہئے کیونکہ یہ سب زائل ہونے والی ہیں اور سورۂ انبیاء میں بیان کیا گیا کہ لوگوں کا حساب قریب ہے اور اس
کا تقاضا یہ ہے کہ دنیا کی فانی نعمتوں میں
دل لگانے کی بجائے ان چیزوں کی تیاری کی طرف توجہ دینی چاہئے جن کا ہم سے
حساب لیا جانا ہے۔