Home ≫ ur ≫ Surah Al Anbiya ≫ ayat 65 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ تَاللّٰهِ لَاَ كِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ(57)فَجَعَلَهُمْ جُذٰذًا اِلَّا كَبِیْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَیْهِ یَرْجِعُوْنَ(58)قَالُوْا مَنْ فَعَلَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَاۤ اِنَّهٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیْنَ(59)قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًى یَّذْكُرُهُمْ یُقَالُ لَهٗۤ اِبْرٰهِیْمُﭤ(60)قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰۤى اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَشْهَدُوْنَ(61)قَالُوْۤا ءَاَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا یٰۤاِبْرٰهِیْمُﭤ(62)قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ ﳓ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْــٴَـلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ(63)فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ(64)ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْۚ-لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰۤؤُلَآءِ یَنْطِقُوْنَ(65)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تَاللّٰهِ:اور مجھے اللہ کی قسم ہے!} اس آیت اور اس کے بعد والی 7 آیات میں جو واقعہ بیان کیاگیا ہے ا س کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کاایک سالانہ میلہ لگتا تھا اور وہ اس دن جنگل میں جاتے اور وہاں شام تک لہو و لَعب میں مشغول رہتے تھے ، واپسی کے وقت بت خانے میں آتے اور بتوں کی پوجا کرتے تھے ،اس کے بعد اپنے مکانوں کو واپس جاتے تھے ۔ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کی ایک جماعت سے بتوں کے بارے میں مناظرہ کیا تو ان لوگوں نے کہا: کل ہماری عید ہے، آپ وہاں چلیں اور دیکھیں کہ ہمارے دین اور طریقے میں کیا بہار ہے اور کیسے لطف آتے ہیں ،چنانچہ جب وہ میلے کا دن آیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے میلے میں چلنے کو کہا گیا تو آپ عذر بیان کر کے رہ گئے اور میلے میں نہ گئے جبکہ وہ لوگ روانہ ہو گئے۔ جب ان کے باقی ماندہ اور کمزور لوگ جو آہستہ آہستہ جا رہے تھے گزرے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ میں تمہارے بتوں کا برا چاہوں گا۔ آپ کی اس بات کو بعض لوگوں نے سن لیا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بت خانے کی طرف لوٹے توآپ نے ان سب بتوں کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا، البتہ ان کے بڑے بت کو چھوڑ دیا اور کلہاڑا اس کے کندھے پر رکھ دیا کہ شاید وہ ا س کی طرف رجوع کریں ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اس بڑے بت سے پوچھیں کہ ان چھوٹے بتوں کا کیا حال ہے؟ یہ کیوں ٹوٹے ہیں اور کلہاڑا تیری گردن پر کیسے رکھا ہے؟ اور یوں اُن پر اِس بڑے بت کاعاجز ہونا ظاہر ہو اور انہیں ہوش آئے کہ ایسے عاجز خدا نہیں ہو سکتے ۔یا یہ معنی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دریافت کریں اور آپ کو حجت قائم کرنے کا موقع ملے ۔چنانچہ جب قوم کے لو گ شام کو واپس ہوئے اور بت خانے میں پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ بت ٹوٹے پڑے ہیں تو کہنے لگے: کس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ بیشک وہ یقیناظالم ہے۔ کچھ لوگ کہنے لگے: ہم نے ایک جوان کو انہیں برا کہتے ہوئے سنا ہے جس کو ابراہیم کہاجاتا ہے، ہمارا گمان یہ ہے کہ اسی نے ایسا کیا ہو گا۔ جب یہ خبر ظالم و جابر نمرود اور اس کے وزیروں تک پہنچی تو وہ کہنے لگے: اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ شاید لوگ گواہی دیں کہ یہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی کا فعل ہے یا ان سے بتوں کے بارے میں ایسا کلام سنا گیا ہے ۔اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ گواہی قائم ہو جائے تو وہ آپ کے درپے ہوں ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بلائے گئے اور ان لوگوں نے کہا: اے ابراہیم! کیا تم نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ آپ نے اس بات کا تو کچھ جواب نہ دیا اور مناظرانہ شان سے تعریض کے طور پر ایک عجیب و غریب حجت قائم کی اور فرمایا: ان کے اس بڑے نے اس غصے سے ایسا کیا ہوگا کہ اس کے ہوتے تم اس کے چھوٹوں کو پوجتے ہو ، اس کے کندھے پر کلہاڑا ہونے سے ایسا ہی قیاس کیا جا سکتا ہے، مجھ سے کیا پوچھتے ہو! تم ان سے پوچھ لو، اگر یہ بولتے ہیں تو خود بتائیں کہ ان کے ساتھ یہ کس نے کیا ؟اس سے مقصود یہ تھا کہ قوم اس بات پرغور کرے کہ جو بول نہیں سکتا، جو کچھ کر نہیں سکتا وہ خدا نہیں ہو سکتا اور اس کی خدائی کا اعتقاد باطل ہے۔ چنانچہ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ فرمایا تو وہ غور کرنے لگے اور سمجھ گئے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حق پر ہیں اور اپنے آپ سے کہنے لگے: بیشک تم خود ہی ظالم ہوجو ایسے مجبوروں اور بے اختیاروں کو پوجتے ہو ،جو اپنے کاندھے سے کلہاڑا نہ ہٹا سکے وہ اپنے پجاری کو مصیبت سے کیا بچا سکے اور اس کے کیا کام آ سکے گا ۔(مگر اتنا سوچ لینا ایمان کے لئے کافی نہیں جب تک اقرار و اعتراف بھی نہ ہو، اس لئے وہ مشرک ہی رہے۔)( خازن،الانبیاء،تحت الآیۃ: ۵۷-۶۴، ۳ / ۲۸۰-۲۸۱، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۵۷-۶۴، ص۷۱۹-۷۲۰، ملتقطاً)
{ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْ:پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے کردئیے گئے ۔} یعنی کلمۂ حق کہنے کے بعد پھر ان کی بدبختی ان کے سروں پر سوار ہوئی اور وہ کفر کی طرف پلٹے اور باطل جھگڑا شروع کر دیا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہنے لگے :تمہیں خوب معلوم ہے یہ بولتے نہیں ہیں تو ہم ان سے کیسے پوچھیں اور اے ابراہیم! تم ہمیں ان سے پوچھنے کا کیسے حکم دیتے ہو۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۲۸۱، مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۷۲۰، ملتقطاً)