Home ≫ ur ≫ Surah Al Anbiya ≫ ayat 68 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ(68)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا حَرِّقُوْهُ:کہا: ان کو جلادو۔} جب حجت تمام ہو گئی اور وہ لوگ جواب سے عاجز آگئے تو کہنے لگے: اگر تم اپنے خداؤں کی کچھ مدد کرنا چاہ رہے ہو تو ان کا انتقام لے کر ان کی مدد کرو اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جلا دو کیونکہ یہ بڑی ہولناک سزا ہے۔ چنانچہ نمرود اور اس کی قوم حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جلا ڈالنے پر متفق ہو گئی اور انہوں نے آپ کو ایک مکان میں قید کر دیا اور کوثیٰ بستی میں ایک عمارت بنائی اور ایک مہینہ تک پوری کوشش کر کے ہرقسم کی لکڑیاں جمع کیں اور ایک عظیم آ گ جلائی جس کی تپش سے ہوا میں پرواز کرنے والے پرندے جل جاتے تھے اور ایک منجنیق ( یعنی پتھر پھینکنے والی مشین) کھڑی کی اور آپ کو باندھ کر اس میں رکھااور آگ میں پھینک دیا۔ اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبانِ مبارک پر تھا حَسْبِیَ اللہ وَ نِعْمَ الْوَکِیْل، یعنی مجھے اللہ کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ جبریل ِامین عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ سے عرض کی: کیا کچھ کام ہے ؟ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’تم سے نہیں ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: تو اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے سوال کیجئے۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ سوال کرنے سے اس کا میرے حال کو جاننا میرے لئے کافی ہے۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۷۲۱)
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ سمجھا تھا کہ امتحان کے وقت دعا کرنی بھی مناسب نہیں کہ کہیں یہ بے صبری میں شمار نہ ہوجائے۔ یہ انہی کامرتبہ تھا، ہمیں بہرحال مصیبت و بلا کے وقت دعا کرنے کا حکم ہے۔