banner image

Home ur Surah Al Anfal ayat 58 Translation Tafsir

اَلْاَ نْفَال

Al Anfal

HR Background

وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَیْهِمْ عَلٰى سَوَآءٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآىٕنِیْنَ(58)

ترجمہ: کنزالایمان اور اگر تم کسی قوم سے دغا کا اندیشہ کرو تو ان کا عہد ان کی طرف پھینک دو برابری پر بیشک دغا والے اللہ کو پسند نہیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اگر تمہیں کسی قوم سے عہد شکنی کا اندیشہ ہوتو ان کا عہد ان کی طرف اس طرح پھینک دو کہ (دونوں علم میں ) برابر ہوں بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً:اور اگر تمہیں کسی قوم سے عہد شکنی کا اندیشہ ہو۔} اس آیت میں عام مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں سے خطاب ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ معاہدے کے بعد جب کسی قوم کی طرف سے عہد شکنی کی علامات ظاہر ہوں تو عہد توڑنے کیلئے مسلمانوں کے امیر پر لازم ہے کہ انہیں بتا دے کہ آج کے بعد ہمارا تم سے معاہدہ ختم ہے اور ان پر حملہ کرنے سے پہلے انہیں جنگ کی اطلاع دے دے تاکہ یہ اس قوم سے بدعہدی کرنے والا شمار نہ ہو اور اگر ان کی عہد شکنی روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو جائے تو عہد ختم ہونے اور جنگ کی اطلاع دینے کی ضرورت نہیں بلکہ ڈائریکٹ ان پر حملہ کر دیاجائے۔( صاوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۷۷۴)

عہد سے متعلق اسلام کی عظیم تعلیم:

            اس آیت سے واضح ہو اکہ دینِ اسلام میں عہد سے متعلق دی گئی تعلیم انتہائی شاندار ہے اور کفار سے کئے ہوئے عہد کا بھی اسلام میں بہت لحاظ رکھا گیا ہے، یہاں کفار سے کئے گئے عہد کی پاسداری سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو ’’حضرت سلیم بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضرت امیر معاویہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور رومیوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا، حضرت امیر معاویہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان کے شہروں کی طرف تشریف لے گئے تاکہ جب معاہدہ ختم ہو تو ان پر حملہ کر دیں لیکن اچانک ایک آدمی کو چوپائے یا گھوڑے پر دیکھا وہ کہہ رہا تھا: اللہُ اَکْبَر! عہد پورا کرو، عہد شکنی نہ کرو۔ کیا دیکھتے ہیں کہ یہ شخص حضرت عمرو بن عَبْسَہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ’’جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو وہ ا س معاہدے کو نہ توڑے اور نہ بدلے جب تک کہ اس کی مدت ختم نہ ہو جائے یا وہ برابری کی بنیاد پر اس کی طرف پھینک نہ دے۔ راوی فرماتے ہیں ’’یہ سن کر حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُ  لوگوں کو لے کر واپس لوٹ گئے۔ (ترمذی، کتاب السیر، باب ما جاء فی الغدر، ۳ / ۲۱۲، الحدیث: ۱۵۸۶)