Home ≫ ur ≫ Surah Al Anfal ≫ ayat 70 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْۤ اَیْدِیْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰۤىۙ-اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ خَیْرًا یُّؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(70)
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ:اے نبی۔} شانِ نزول: یہ آیت حضرت عباس بن عبد المطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا ہیں۔یہ کفارِ قریش کے ان دس سرداروں میں سے تھے جنہوں نے جنگِ بدر میں لشکرِ کفار کے کھانے کی ذمہ داری لی تھی اور یہ اس خرچ کے لئے بیس اوقیہ سونا ساتھ لے کر چلے تھے لیکن ان کے ذمے جس دن کھلانا تجویز ہوا تھا خاص اسی روز جنگ کا واقعہ پیش آیا اور قِتال میں کھانے کھلانے کی فرصت ومہلت نہ ملی تو یہ بیس اوقیہ سونا ان کے پاس بچ رہا، جب وہ گرفتار ہوئے اور یہ سونا ان سے لے لیا گیا تو انہوں نے درخواست کی کہ یہ سونا ان کے فدیہ میں شمار کرلیا جائے مگر رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انکار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو چیز ہماری مخالفت میں صَرف کرنے کے لئے لائے تھے وہ نہ چھوڑی جائے گی اور حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر ان کے دونوں بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث کے فدیئے کا بار بھی ڈالا گیا تو حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا :یا محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تم مجھے اس حال میں چھوڑو گے کہ میں باقی عمر قریش سے مانگ مانگ کر بسر کیا کروں تو حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ پھر وہ سونا کہاں ہے جس کو تمہارے مکہ مکرمہ سے چلتے وقت تمہاری بیوی ام الفضل نے دفن کیا تھا اور تم ان سے کہہ کر آئے ہو کہ خبر نہیں ہے مجھے کیا حادثہ پیش آئے، اگر میں جنگ میں کام آجائوں تو یہ تیرا ہے اور عبداللہ اور عبیداللہ کا اور فضل اور قثم کا (سب ان کے بیٹے تھے) حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا ؟ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے خبردار کیا ہے ۔اس پر حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں بے شک آپ سچے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میرے اس راز پراللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی مُطَّلع نہ تھا اور حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بھتیجوں عقیل و نوفل کو حکم دیا وہ بھی اسلام لائے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۲۱۱)
{یُؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ:جو (مال) تم سے لیا گیااس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا۔} جب رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس بَحرَین کا مال آیا جس کی مقدار اسی ہزار تھی تو حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نمازِ ظہر کے لئے وضو کیا اور نماز سے پہلے ہی کل مال تقسیم کردیا اور حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا کہ اس میں سے لے لو تو جتنا ان سے اٹھ سکا، اتنا انہوں نے لے لیا۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ اس سے بہتر ہے کہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھ سے لیا اور میں اس کی مغفرت کی امید رکھتا ہوں۔ اپنے مال و دولت کا حال بیان کرتے ہوئے حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیس اوقیہ سونے کے بدلے بیس غلام عطا کئے، وہ سب کے سب تاجر تھے اور بہت سارا مال کما کر دیتے تھے، ان میں سے جو غلام سب سے کم کما کر دیتا تھا اس کی مقدار بیس ہزار درہم تھی۔( مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۴۲۱، بغوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۲۲۱، ملتقطاً)