Home ≫ ur ≫ Surah Al Anfal ≫ ayat 8 ≫ Translation ≫ Tafsir
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ۪-وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَ(5)یُجَادِلُوْنَكَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ كَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَ هُمْ یَنْظُرُوْنَﭤ(6)وَ اِذْ یَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّآىٕفَتَیْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِیْنَ(7)لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَ یُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ(8)
تفسیر: صراط الجنان
{كَمَا:جس طرح۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مالِ غنیمت کا مسلمانوں کے اختیار سے نکال کر آپ کے اختیار میں دے دینا ایسے ہی حق ہے جیسے آپ کا غزوۂ بدر کے لئے اپنے گھر سے نکلنا برحق تھا اگرچہ دونوں چیزیں طبعی طور پر بعض مسلمانوں کی طبیعت پر گراں گزر رہی ہیں۔
{وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَ:حالانکہ یقینا مسلمانوں کا ایک گروہ اس پر ناخوش تھا۔}اس گروہ کے ناخوش ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ اُن کی تعداد کم ہے، ہتھیار تھوڑے ہیں جبکہ دشمن کی تعداد بھی زیادہ ہے اور وہ اسلحہ وغیرہ کا بڑا سامان رکھتا ہے۔ ان آیات میں مذکور واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ ملکِ شام سے ابوسفیان کے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ آنے کی خبر پا کر سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صحابۂ کرام کے ساتھ اُن سے مقابلے کیلئے روانہ ہوئے تو مکہ مکرمہ سے ابوجہل قریش کا ایک لشکرِ گراں لے کر اس تجارتی قافلے کی امداد کے لئے روانہ ہوا۔ ا بوسفیان تو رستے سے کترا کر اپنے قافلے کے ہمراہ ساحلِ سمندر کے راستے پر چل پڑے اور ابوجہل سے اس کے رفیقوں نے کہا کہ قافلہ تو بچ گیا اس لئے اب مکہ مکرمہ واپس چل۔ ابو جہل نے انکار کردیا اور وہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنگ کرنے کے ارادے سے بدر کی طرف چل پڑا۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مشورہ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کفار کے دونوں گروہوں یعنی تجارتی قافلے یا قریش کے لشکر میں سے ایک پر مسلمانوں کوفتح عطا فرمائے گا ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اس بات میں موافقت کی لیکن بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے یہ عذر پیش کیا کہ ہم اِس تیاری سے نہیں چلے تھے اور نہ ہماری تعداد اتنی ہے اور نہ ہی ہمارے پاس کافی اسلحے کا سامان ہے۔ یہ عذر رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو گراں گزرا اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : قافلہ تو ساحل کی طرف نکل گیا جبکہ ابوجہل سامنے آ رہا ہے۔ اس پر ان لوگوں نے پھر عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قافلے ہی کا تعاقب کیجئے اور دشمن کے لشکرکو چھوڑ دیجئے۔ یہ بات خاطرِ اقدس پہ ناگوار ہوئی تو حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے کھڑے ہو کر اپنے اخلاص و فرمانبرداری اور رضا جوئی و جاں نثاری کا اظہار کیا اور بڑی قوت و اِستحکام کے ساتھ عرض کی کہ وہ کسی طرح مرضی ٔمبارک کے خلاف سستی کرنے والے نہیں ہیں۔پھر اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے بھی عرض کی کہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو حکم فرمایا اس کے مطابق تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں کبھی پیچھے نہ ہٹیں گے ، ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ا یمان لائے ہیں ، ہم نے آپ کی تصدیق کی اور ہم نے آپ کی پیروی کے عہد کئے ہیں۔ہمیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع میں سمندر کے اندر کود جانے سے بھی کوئی عذر نہیں ہے۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: چلو ، اللہ تعالیٰ کی برکت پر بھروسا کرو ،اُس نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے اور میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ مجھے دشمنوں کے گرنے کی جگہ نظر آرہی ہے۔ اس کے بعد حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کے مرنے اور گرنے کی جگہ ہر ایک کے نام کے ساتھ بتادی اور ایک ایک کی جگہ پر نشانات لگادیئے اور یہ معجزہ دیکھا گیا کہ اُن میں سے جو مر کر گرا اُسی نشان پر گرا اور اس سے خطا نہ کی۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۵-۷، ۲ / ۱۷۸-۱۸۰)
نوٹ:غزوۂ بد ر سے متعلق مزید معلومات کے لئے سورۂ آلِ عمران کی آیت 123 تا 127کی تفسیر ملاحظہ کیجئے۔