ترجمہ: کنزالایمان
فرمایا کس چیز نے تجھے روکا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جب میں نے تجھے حکم دیا تھا بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا ۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ نے فرمایا: جب میں نے تجھے حکم دیا تھاتو تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟ ابلیس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں ۔تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا۔
تفسیر: صراط الجنان
{ خَلَقْتَنِیْ مِنْ
نَّارٍ:تو نے مجھے آگ سے بنایا۔} اس سے ابلیس کی مراد یہ تھی کہ آگ مٹی سے افضل اور اعلٰی ہے تو جس کی
اصل آگ ہوگی وہ اس سے افضل ہوگا جس کی اصل مٹی ہو اور اس خبیث کا یہ خیال غلط
وباطل تھا کیونکہ افضل وہ ہے جسے مالک و مولیٰ فضیلت دے، فضیلت کا مدار اصل اور
جوہر پر نہیں بلکہ مالک کی اطاعت وفرمانبرداری پر ہے نیز آگ کا مٹی سے افضل ہونا
بھی صحیح نہیں کیونکہ آگ میں طیش اور تیزی اور بلندی چاہنا ہے اور یہ چیزیں تکبر
کاسبب بنتی ہے جبکہ مٹی سے وقار ،حلم اور صبر حاصل ہوتے ہیں۔ یونہی مٹی سے ملک
آباد ہوتے ہیں جبکہ آگ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ نیزمٹی امانت دار ہے جو چیز اِس میں رکھی
جائے مٹی ا سے محفوظ رکھتی ہے جبکہ جو چیز آگ میں ڈالی جائے، آگ اسے فنا کردیتی
ہے۔ نیز مٹی آگ کو بجھا دیتی ہے اور آگ مٹی کو فنا نہیں کرسکتی۔ نیز یہاں ایک اور
بات یہ ہے کہ شیطان پرلے درجے کا احمق و بدبخت
تھا کہ اللہعَزَّوَجَلَّ کا صریح حکم موجود ہوتے ہوئے اس کے مقابلے میں قیاس کیا اور جو قیاس نص کے خلاف ہو وہ ضرور مردود۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ امر (حکم) وجوب کے لئے ہوتا ہے اوراللہعَزَّوَجَلَّ نے جو شیطان سے سجدہ نہ
کرنے کا سبب دریافت فرمایا تو یہ اس کی ڈانٹ پھٹکار کیلئے تھا اور اس لئے کہ شیطان
کی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دشمنی
اور اس کاکفر وتکبر ظاہر ہوجائے نیز اپنی اصل یعنی آگ پر مغرور ہونا اور حضرت آدم
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اصل
یعنی مٹی کی تحقیر کرنا ظاہر ہوجائے۔
یہ سورت مکہ مکرمہ میں
نازل ہوئی ہے اور ایک روایت کے مطابق پانچ آیتوں کے علاوہ یہ سورت مکیہ ہے، ان
پانچ آیات میں سے پہلی آیت ’’ وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ‘‘ ہے۔ (خازن، الاعراف، ۲ / ۷۶)
اعراف کا معنی ہے بلند
جگہ، اس سورت کی آیت نمبر 46میں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ اعراف کا ذکر ہے
جو کہ بہت بلند ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اعراف ‘‘رکھا گیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے
قرآنِ پاک کی پہلی 7 بڑی سورتوں کوحفظ کیا اور ان کی تلاوت کرتا رہا تو یہ اس کے
لئے کثیر ثواب کا باعث ہے۔ (مستدرک، کتاب فضائل
القرآن، من اخذ السبع الاول من القرآن فہو خیر، ۲ / ۲۷۰، الحدیث: ۲۱۱۴)ان سات سورتوں میں سے ایک
سورت اعراف بھی ہے۔
یہ مکی سورتوں میں سب سے بڑی سورت ہے اور اس
سورت کا مرکزی مضمون یہ کہ اس میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
حالات اور انہیں جھٹلانے والی قوموں کے انجام کے واقعات بیان کر کے اس امت کے
لوگوں کو ان قوموں جیسا عذاب نازل ہونے سے ڈرانا، ایمان اور نیک اعمال کی
ترغیب دینا ہے۔ نیز اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد جیسےاللہ تعالیٰ
کی وحدانیت، اس کے وجود، وحی اور رسالت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور
اعمال کی جزاء ملنے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ
مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1)
…قرآن اللہ تعالیٰ
کا کلام اور اس کی نعمت ہے اور قرآنِ پاک کی تعلیمات کی پیروی ضروری ہے۔
(2)
…قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور کیا جائے گا۔
(3)
…دوبارہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا، اس میں
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، فرشتوں کا
انہیں سجدہ کرنا، شیطان کا سجدہ کرنے سے تکبر کرنا، شیطان کا مردود ہونا، حضرت
آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
ساتھ اس کی دشمنی اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی
جنت سے زمین کی طرف آمدکا بیان ہے۔
(4)
… کفار ومشرکین کے اخروی انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
(5)
…قیامت کے دن ایمان والوں کے حالات، جہنمیوں اور اَعراف والوں سے ہونے والی گفتگو
اور اہلِ جہنم کی آپس میں کی جانے والی گفتگو کابیان ہے۔
(6)
…اللہ تعالیٰ
نے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے اپنے وجود اور اپنی وحدانیت پر استدلال فرمایا ہے۔
(7)
…اس سورت میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کے علاوہ مزید یہ7واقعات بیان کئے گئے:
(1)
حضرت نوح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کاواقعہ۔
(2)حضرت
ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(3)
حضرت صالحعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(4)
حضرت لوط عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(5)
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
ان کی قوم کا واقعہ۔
(6)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
فرعون کا واقعہ۔
(7)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
بلعم بن باعور کا واقعہ۔
(8)
…اس سورت کے آخر میں شرک کا تفصیلی رد، مَکارمِ اخلاق کی تعلیم، وحی کی پیروی
کرنے اور اللہ تعالیٰ
کی طرف رجوع کرنے کا بیان ہے۔
سورۂ اعراف کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’اَنعام‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ اَنعام میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، سابقہ
امتوں کی ہلاکت اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاذکر اجمالی طور پر کیا گیا تھاجبکہ سورۂ اعراف میں ان تینوں
امور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ (تناسق
الدرر، سورۃ الاعراف،۸۷)