Home ≫ ur ≫ Surah Al Araf ≫ ayat 127 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰى وَ قَوْمَهٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ یَذَرَكَ وَ اٰلِهَتَكَؕ-قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ وَ نَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْۚ-وَ اِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ(127)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ:اور قومِ فرعون کے سردار بولے۔} اے فرعون! کیا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کو اس لیے چھوڑ دے گا تاکہ وہ اس طرح فساد پھیلائیں کہ مصر کی سر زمین میں تیری مخالفت کریں اور وہاں کے باشندوں کا دین بدل دیں۔سرداروں نے یہ اس لئے کہا تھا کہ جادو گروں کے ساتھ چھ لاکھ آدمی بھی ایمان لے آئے تھے۔ سرداروں نے فرعون سے دوسری بات یہ کہی کہ ’’اور وہ موسیٰ تجھے اور تیرے مقرر کئے ہوئے معبودوں کو چھوڑے رکھے‘‘ یعنی نہ تیری عبادت کریں اورنہ تیرے مقرر کئے ہوئے معبودوں کی پوجا کریں۔
مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کے لئے بُت بنوا دیئے تھے اور ان کی عبادت کرنے کا حکم دیتا تھا اور کہتا تھا کہ’’ میں تمہارا بھی رب ہوں اور ان بُتوں کا بھی۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ فرعون دَہری تھا یعنی صانعِ عالَم کے وجود کا منکر، اس کا خیال تھا کہ عالَمِ سِفْلِی کی تدبیر ستارے کرتے ہیں اسی لئے اُس نے ستاروں کی صورتوں پر بت بنوائے تھے، ان کی خود بھی عبادت کرتا تھا اور دوسروں کو بھی ان کی عبادت کا حکم دیتا تھا اور اپنے آپ کوزمین کا مُطاع و مخدوم کہتا تھا اسی لئے وہ ’’اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى‘‘(میں تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں ) کہتا تھا۔(مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ص۳۸۱، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۲ / ۱۲۸، ملتقطاً)
{ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ:(فرعون نے ) کہا :اب ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے۔} فرعون کی قوم کے سرداروں نے فرعون سے جویہ کہا تھا کہ’’ کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو اس لیے چھوڑدے گا تاکہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں ‘‘ اس سے ان کا مطلب فرعون کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور آپ کی قوم کے قتل پر ابھارنا تھا ۔ جب اُنہوں نے ایسا کیا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کو نُزولِ عذاب کا خوف دلایا ۔ فرعون اپنی قوم کی خواہش پوری کرنے پر قدرت نہیں رکھتا تھا کیونکہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزے کی قوت سے مرعوب ہوچکا تھا اسی لئے اس نے اپنی قوم سے یہ کہا کہ’’ ہم بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کریں گے اور لڑکیوں کو چھوڑ دیں گے۔ اس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ اس طرح حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی تعداد گھٹا کر اُن کی قوت کم کریں گے۔ مزید یہ کہ عوام میں اپنا بھرم رکھنے کے لئے یہ بھی کہہ دیا کہ’’ہم بے شک اُن پر غالب ہیں۔ اس سے اس کا مقصود یہ تھا کہ عوام کو پتا چل جائے کہ اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کو کسی عجز یا خوف کی وجہ سے نہیں چھوڑا بلکہ وہ جب چاہے انہیں پکڑ سکتا ہے۔یہ بات وہ اپنے منہ سے کہتا تھا جبکہ فرعون کا حال یہ تھا کہ اس کا دل حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رعب میں بھرا پڑا تھا۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۲ / ۱۲۸، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۵/ ۳۲۴، تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۴ / ۱۸۹، الجزء السابع، ملتقطاً)