ترجمہ: کنزالایمان
پھر جب ہم ان سے عذاب اٹھالیتے ایک مدت کے لیے جس تک انہیں پہنچنا ہے جبھی وہ پھر جاتے۔
تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا اس لیے کہ ہماری آیتیں جھٹلاتے اور ان سے بے خبر تھے۔
اور ہم نے اس قوم کو جو دبا لی گئی تھی اس زمین کے پورب پچھم کا وارث کیا جس میں ہم نے برکت رکھی اور تیرے رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل پر پورا ہوا بدلہ ان کے صبر کا اور ہم نے برباد کردیا جو کچھ فرعون اور اس کی قوم بناتی اور جو چنائیاں اٹھاتے تھے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب ہم ان سے اس مدت تک کے لئے عذاب اٹھالیتے جس تک انہیں پہنچنا تھا تو وہ فوراً (اپنا عہد) توڑ دیتے۔
تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا کیونکہ انہوں نے ہماری آیتوں کوجھٹلایا اور ان سے بالکل غافل رہے۔
اور ہم نے اس قوم کو جسے دبایا گیا تھا اُس زمین کے مشرقوں اور مغربوں کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی تھی اور بنی اسرائیل پر ان کے صبر کے بدلے میں تیرے رب کا اچھا وعدہ پورا ہوگیا اور ہم نے وہ سب تعمیرات برباد کردیں جو فرعون اور اس کی قوم بناتی تھی اور وہ عمارتیں جنہیں وہ بلند کرتے تھے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ:تو ہم نے ان سے بدلہ لیا۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جب
بار بار فرعونیوں کو عذابوں سے نجات دی گئی اور وہ کسی عہد پر قائم نہ رہے اور ایمان نہ لائے اور کفر نہ چھوڑا
تو جو میعاداُن کے لئے مقرر فرمائی گئی تھی وہ پوری ہونے کے بعد اُنہیں اللہ تعالیٰ نے دریائے نیل میں
غرق کرکے ہلاک کردیا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۶، ۲ / ۱۳۲)
{وَاَوْرَثْنَا:اور ہم نے
مالک بنا دیا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی
اسرائیل کو غیبی خبر دی تھی کہ ’’ عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے
گا اور تمہیں زمین میں جانشین بنا دے گا‘‘ جیساآپ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا،
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کر
کے ہلاک کر دیا، اس کا ذکر اوپر والی آیت میں ہے اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو پورے مصرو شام کا مالک بنا دیا، اس کا ذکر
اس آیت میں ہے۔(تفسیر کبیر،
الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۷، ۵ / ۳۴۸، ملتقطاً)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون کے غرق ہو جانے
کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرعون کے مَظالِم کا شکار بنی اسرائیلکو سرزمین کے مشرق و مغرب
یعنیمصر و شام کا مالک بنا دیا۔ اس سر
زمین میں اللہ تعالیٰ نے نہروں ، درختوں ، پھلوں ، کھیتیوں اور پیداوار کی کثرت سے برکت رکھی تھی اس طرحبنی اسرائیل پر ان کے صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا اچھا وعدہ پورا
ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے اُن تمام عمارتوں
، ایوانوں اور باغوں کوبرباد کر دیا جو فرعون اور اس کی قوم نے بنائے تھے۔ اس آیت
میں صبر کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل کو ان کے صبر کی وجہ سے عزت،
غلبہ، خوشحالی اور حکمرانی نصیب ہوئی۔
یہ سورت مکہ مکرمہ میں
نازل ہوئی ہے اور ایک روایت کے مطابق پانچ آیتوں کے علاوہ یہ سورت مکیہ ہے، ان
پانچ آیات میں سے پہلی آیت ’’ وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ‘‘ ہے۔ (خازن، الاعراف، ۲ / ۷۶)
اعراف کا معنی ہے بلند
جگہ، اس سورت کی آیت نمبر 46میں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ اعراف کا ذکر ہے
جو کہ بہت بلند ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اعراف ‘‘رکھا گیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے
قرآنِ پاک کی پہلی 7 بڑی سورتوں کوحفظ کیا اور ان کی تلاوت کرتا رہا تو یہ اس کے
لئے کثیر ثواب کا باعث ہے۔ (مستدرک، کتاب فضائل
القرآن، من اخذ السبع الاول من القرآن فہو خیر، ۲ / ۲۷۰، الحدیث: ۲۱۱۴)ان سات سورتوں میں سے ایک
سورت اعراف بھی ہے۔
یہ مکی سورتوں میں سب سے بڑی سورت ہے اور اس
سورت کا مرکزی مضمون یہ کہ اس میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
حالات اور انہیں جھٹلانے والی قوموں کے انجام کے واقعات بیان کر کے اس امت کے
لوگوں کو ان قوموں جیسا عذاب نازل ہونے سے ڈرانا، ایمان اور نیک اعمال کی
ترغیب دینا ہے۔ نیز اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد جیسےاللہ تعالیٰ
کی وحدانیت، اس کے وجود، وحی اور رسالت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور
اعمال کی جزاء ملنے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ
مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1)
…قرآن اللہ تعالیٰ
کا کلام اور اس کی نعمت ہے اور قرآنِ پاک کی تعلیمات کی پیروی ضروری ہے۔
(2)
…قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور کیا جائے گا۔
(3)
…دوبارہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا، اس میں
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، فرشتوں کا
انہیں سجدہ کرنا، شیطان کا سجدہ کرنے سے تکبر کرنا، شیطان کا مردود ہونا، حضرت
آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
ساتھ اس کی دشمنی اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی
جنت سے زمین کی طرف آمدکا بیان ہے۔
(4)
… کفار ومشرکین کے اخروی انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
(5)
…قیامت کے دن ایمان والوں کے حالات، جہنمیوں اور اَعراف والوں سے ہونے والی گفتگو
اور اہلِ جہنم کی آپس میں کی جانے والی گفتگو کابیان ہے۔
(6)
…اللہ تعالیٰ
نے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے اپنے وجود اور اپنی وحدانیت پر استدلال فرمایا ہے۔
(7)
…اس سورت میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کے علاوہ مزید یہ7واقعات بیان کئے گئے:
(1)
حضرت نوح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کاواقعہ۔
(2)حضرت
ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(3)
حضرت صالحعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(4)
حضرت لوط عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(5)
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
ان کی قوم کا واقعہ۔
(6)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
فرعون کا واقعہ۔
(7)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
بلعم بن باعور کا واقعہ۔
(8)
…اس سورت کے آخر میں شرک کا تفصیلی رد، مَکارمِ اخلاق کی تعلیم، وحی کی پیروی
کرنے اور اللہ تعالیٰ
کی طرف رجوع کرنے کا بیان ہے۔
سورۂ اعراف کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’اَنعام‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ اَنعام میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، سابقہ
امتوں کی ہلاکت اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاذکر اجمالی طور پر کیا گیا تھاجبکہ سورۂ اعراف میں ان تینوں
امور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ (تناسق
الدرر، سورۃ الاعراف،۸۷)