Home ≫ ur ≫ Surah Al Araf ≫ ayat 155 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اخْتَارَ مُوْسٰى قَوْمَهٗ سَبْعِیْنَ رَجُلًا لِّمِیْقَاتِنَاۚ-فَلَمَّاۤ اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَ اِیَّایَؕ-اَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّاۚ-اِنْ هِیَ اِلَّا فِتْنَتُكَؕ-تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَآءُ وَ تَهْدِیْ مَنْ تَشَآءُؕ-اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ(155)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اخْتَارَ مُوْسٰى:اور موسیٰ نے منتخب کرلیے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پہلی بار رب عَزَّوَجَلَّ سے مناجات کرنے اور تورات لینے تشریف لے گئے تھے۔ اور اس بار گائے کی پوجا کرنے والوں کو معافی دلوانے کیلئے ستر آدمیوں کو ساتھ لے کر تشریف لے گئے، چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہر گروہ سے 6 افراد منتخب کر لئے ،چونکہ بنی اسرائیل کے بارہ گروہ تھے اور جب ہر گروہ میں سے 6 آدمی چنے تودوبڑھ گئے اور جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ مجھے ستر آدمی لانے کا حکم ہوا ہے اور تم 72ہو گئے اس لئے تم میں سے دو آدمی یہیں رہ جائیں تو وہ آپس میں جھگڑنے لگے۔ اس پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: رہ جانے والے کو جانے والے کی طرح ہی ثواب ملے گا، یہ سن کرحضرت کالب اور حضرت یوشع عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رہ گئے اور کل ستر آدمی آپ کے ہمراہ گئے۔ یہ ستر افراد ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہ کی تھی۔ (جمل مع جلالین، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۵، ۳ / ۱۱۹) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں روزہ رکھنے، بدن اور کپڑے پاک کرنے کا حکم دیا پھر ان کے ساتھ طورِ سَینا کی طرف نکلے، جب پہاڑ کے قریب پہنچے تو انہیں ایک بادل نے ڈھانپ لیا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے ساتھ اس میں داخل ہو گئے اور سب نے سجدہ کیا۔ پھر قوم نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا جو اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بارے جو حکم دیا وہ توبہ کیلئے اپنی جان دینا تھا ۔ جب کلام کا سلسلہ ختم ہو نے کے بعد بادل اٹھا لیا گیا تو یہ لوگ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے’’ توبہ میں اپنی جانوں کو قتل کرنے کا جو حکم ہم نے سنا اس کی تصدیق ہم اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو اعلانیہ دیکھ نہ لیں۔ اس پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دیکھتے ہی دیکھتے انہیں شدید زلزلے نے آ لیا اور وہ تمام افراد ہلاک ہو گئے۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۵، ۲ / ۳۰۱، صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۵، ۲ / ۷۱۵، ملتقطاً) یہ دیکھ کرحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے گڑگڑا کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کی کہ’’ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو چاہتا تو یہاں حاضر ہونے سے پہلے ہی انہیں اور مجھے ہلاک کردیتا تاکہ بنی اسرائیل ان سب کی ہلاکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے اور انہیں مجھ پر قتل کی تہمت لگانے کا موقع نہ ملتا۔ اب جو میں اکیلا واپس جاؤں گا تو بنی اسرائیل کہیں گے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان سب کو مروا آئے ہیں۔ اے مولا! میری عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔ کیا تو ہمیں اس کام کی وجہ سے ہلاک فرمائے گا جو ہمارے بے عقلوں نے کیا۔ انہوں نے جو کیا یہ تو تیری ہی طرف سے آزمائش ہے تو اس کے ذریعے جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔ تو ہمارا مولیٰ ہے، تو ہمیں بخش دے اور ہم پررحم فرمااور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ شفاعت ِنبی برحق ہے جس سے دنیا ودین کی آفتیں ٹل جاتی ہیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سب کی شفاعت فرمائی جو اُن کے کام آئی۔