Home ≫ ur ≫ Surah Al Araf ≫ ayat 157 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘-یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْؕ-فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(157)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ:وہ جو رسول کی غلامی کرتے ہیں۔}مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس آیت میں رسول سے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مراد ہیں۔ آیت میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر وصف ِرسالت سے فرمایا گیا کیونکہ آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں ، رسالت کے فرائض ادا فرماتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے اَوامرو نَواہی ، شرائع و احکام اس کے بندوں کو پہنچاتے ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۶)
نبی اور اُمّی کا ترجمہ:
اس کے بعد آپ کی توصیف میں ’’نبی ‘‘فرمایا گیا، اس کا ترجمہ سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ’’غیب کی خبریں دینے والے‘‘ کیا ہے اور یہ نہایت ہی صحیح ترجمہ ہے کیونکہ نَبَاْ ’’ خبر‘‘ کے معنیٰ میں ہے اور نبی کی منفرد خبر بطورِ خاص غیب ہی کی خبر ہوتی ہے تو اس سے مراد غیب کی خبر لینا بالکل درست ہے۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ خبر کے معنیٰ میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا:
’’قُلْ هُوَ نَبَؤٌا عَظِیْمٌ‘‘(ص:۶۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ وہ (قرآن) ایک عظیم خبر ہے۔
ایک جگہ فرمایا:
’’تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهَاۤ اِلَیْكَ‘‘(ہود:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں۔
ایک جگہ فرمایا:
’’ فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْ‘‘(البقرہ:۳۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو جب آدم نے انہیں ان اشیاء کے نام بتادیئے۔
ان کے علاوہ بکثرت آیات میں یہ لفظ اس معنیٰ میں مذکور ہے۔
پھر یہ لفظ یا فاعل کے معنی میں ہوگا یا مفعول کے معنی میں۔ پہلی صورت میں اس کے معنی ہیں ’’غیب کی خبریں دینے والے ‘‘اور دوسری صورت میں اس کے معنی ہوں گے’’ غیب کی خبریں دیئے ہوئے ‘‘ اور ان دونوں معنی کی تائید قرآنِ کریم سے ہوتی ہے ۔پہلے معنی کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے:
’’ نَبِّئْ عِبَادِیْ‘‘ (حجر:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: میرے بندوں کو خبردو۔
دوسری آیت میں فرمایا:
’’ قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ‘‘ (ال عمران :۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:(اے حبیب!)تم فرماؤ ،کیا میں تمہیں بتادوں ؟
اورحضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ارشاد جو قرآنِ کریم میں وارد ہوا:
’’وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْ‘‘(آل عمران:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو۔
اس کا تعلق بھی اسی قسم سے ہے ۔اور دوسری صورت کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے:
’’نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ‘‘(التحریم:۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:مجھے علم والے خبردار (اللہ) نے بتایا۔
اور حقیقت میں انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام غیب کی خبریں دینے والے ہی ہوتے ہیں۔ تفسیر خازن میں ہے کہ ’’ آپ کے وصف میں ’’نبی‘‘ فرمایا، کیونکہ نبی ہونا اعلیٰ اور اشرف مَراتب میں سے ہے اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بہت بلند درجے رکھنے والے اور اس کی طرف سے خبر دینے والے ہیں۔(خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۶)
اُمّی کا ترجمہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ’’بے پڑھے ‘‘ فرمایا۔ یہ ترجمہ بالکل حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے ارشاد کے مطابق ہے اور یقیناً اُمّی ہونا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کہ دنیا میں کسی سے پڑھا نہیں اور کتاب وہ لائے جس میں اَوّلین و آخرین اور غیبوں کے علوم ہیں۔( خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۷) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں۔
ایسا اُمّی کس لئے منت کشِ استاد ہو
کیا کفایت اس کو اِقْرَاْ رَبُّكَ الْاَكْرَمْ نہیں
{یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ:اسے یہ (اہلِ کتاب )اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔} یعنی اپنے پاس توریت و انجیل میں آپ کی نعت و صفت او رنبوت لکھی ہوئی پاتے ہیں۔
تورات و انجیل میں مذکور اوصافِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:
صحیح بخاری میں ہے، حضرت عطاء بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وہ اوصاف دریافت کئے جو توریت میں مذکور ہیں تو انہوں نے فرمایا : ’’خدا کی قسم! حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جو اوصاف قرآنِ کریم میں آئے ہیں انہیں میں سے بعض اوصاف توریت میں مذکور ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے پڑھنا شروع کیا: اے نبی! ہم نے تمہیں شاہد و مُبَشِّر اور نذیر اور اُمِّیُّوں کا نگہبان بنا کر بھیجا، تم میرے بندے اور میرے رسول ہو، میں نے تمہارا نام متوکل رکھا،نہ بدخلق ہو نہ سخت مزاج، نہ بازاروں میں آواز بلند کرنے والے ہو نہ برائی سے برائی کو دفع کرنے والے بلکہ خطا کاروں کو معاف کرتے ہو اور ان پر احسان فرماتے ہو، اللہ تعالیٰ تمہیں نہ اٹھائے گا جب تک کہ تمہاری برکت سے غیر مستقیم ملت کو اس طرح راست نہ فرمادے کہ لوگ صدق و یقین کے ساتھ ’’لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ پکارنے لگیں اور تمہاری بدولت اندھی آنکھیں بینا اور بہرے کان شنوا (سننے والے) اور پردوں میں لپٹے ہوئے دل کشادہ ہوجائیں۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب کراہیۃ السخب فی السوق، ۲ / ۲۵، الحدیث: ۲۱۲۵)
اور حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صفات میں توریت شریف کا یہ مضمون بھی منقول ہے کہ’’اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صفت میں فرمایا کہ’’میں اُنہیں ہر خوبی کے قابل کروں گا، اور ہر خُلقِ کریم عطا فرماؤں گا، اطمینانِ قلب اور وقار کو اُن کا لباس بناؤں گا اور طاعات وا حسان کو ان کا شعار کروں گا۔ تقویٰ کو ان کا ضمیر، حکمت کو ان کا راز، صدق و وفا کو اُن کی طبیعت ،عفوو کرم کو اُن کی عادت ، عدل کو ان کی سیرت، اظہارِ حق کو اُن کی شریعت، ہدایت کو اُن کا امام اور اسلام کو اُن کی ملت بناؤں گا۔ احمد اُن کا نام ہے، مخلوق کو اُن کے صدقے میں گمراہی کے بعد ہدایت اور جہالت کے بعد علم و معرفت اور گمنامی کے بعد رفعت و منزلت عطا کروں گا۔ اُنہیں کی برکت سے قلت کے بعد کثرت اور فقر کے بعد دولت اور تَفَرُّقے کے بعد محبت عنایت کروں گا، اُنہیں کی بدولت مختلف قبائل، غیر مجتمع خواہشوں اور اختلاف رکھنے والے دلوں میں اُلفت پیدا کروں گا اور اُن کی اُمت کو تمام اُمتوں سے بہتر کروں گا۔(الشفاء، القسم الاول فی تعظیم اللہ تعالی لہ، الباب الاول فی ثناء اللہ تعالی علیہ، الفصل الثانی، ص۲۵-۲۶)
ایک اور حدیث میں توریت شریف سے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے یہ اوصاف منقول ہیں ’’میرے بندے احمد مختار، ان کی جائے ولادت مکہ مکرمہ اور جائے ہجرت مدینہ طیبہ ہے،اُن کی اُمت ہر حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کثیر حمد کرنے والی ہے۔ (ابن عساکر، باب ما جاء من انّ الشام یکون ملک اہل الاسلام، ۱ / ۱۸۶-۱۸۷)
حضرت علامہ مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اہلِ کتاب ہر زمانے میں اپنی کتابوں میں تراش خراش کرتے رہے اور اُن کی بڑی کوشِش اس پر مُسلَّط رہی کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر اپنی کتابوں میں نام کو نہ چھوڑیں۔توریت انجیل وغیرہ اُن کے ہاتھ میں تھیں اس لئے انہیں اس میں کچھ دشواری نہ تھی لیکن ہزاروں تبدیلیاں کرنے بعد بھی موجودہ زمانے کی بائیبل میں حضور سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بشارت کا کچھ نہ کچھ نشان باقی رہ ہی گیا۔ چنانچہ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور۱۹۳۱ء کی چھپی ہوئی بائیبل میں یوحنا کی انجیل کے باب چودہ کی سولہویں آیت میں ہے: ’’ اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دُوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔‘‘ لفظ مددگار پر حاشیہ ہے، اس میں اس کے معنی’’ وکیل یا شفیع‘‘ لکھے ہیں تو اب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد ایسا آنے والا جو شفیع ہو اور ابد تک رہے یعنی اس کا دین کبھی منسوخ نہ ہوبجز سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کون ہے ؟پھر اُنتیسویں تیسویں آیت میں ہے:’’ اور اب میں نے تم سے اس کے ہونے سے پہلے کہہ دیا ہے تاکہ جب ہوجائے تو تم یقین کرو اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔‘‘ کیسی صاف بشارت ہے اور حضرت ِ عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی اُمت کو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت کا کیسا مُنتظر بنایا اور شوق دلایا ہے اور دُنیا کا سردار خاص سیّدِ عالم کا ترجمہ ہے اور یہ فرمانا کہ ’’ مجھ میں اس کا کچھ نہیں ‘‘ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت کا اظہار، اُس کے حضور اپنا کمالِ ادب و انکسار ہے۔
پھر اسی کتاب کے باب سولہ کی ساتویں آیت ہے’’لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا، لیکن اگر جاؤں گا تو اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔‘‘ اس میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بشارت کے ساتھ اس کا بھی صاف اظہار ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاتَم الانبیاء ہیں۔آپ کا ظہور جب ہی ہوگا جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی تشریف لے جائیں۔ اس کی تیرہویں آیت ہے’’لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔‘‘ اس آیت میں بتایا گیا کہ سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آمد پر دینِ الہٰی کی تکمیل ہوجائے گی اور آپ سچائی کی راہ یعنی دینِ حق کو مکمل کردیں گے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اُن کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور یہ کلمے کہ’’اپنی طرف سے نہ کہے گا جو کچھ سنے گا وہی کہے گا‘‘ خاص ’’ وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى‘‘(نجم:۳، ۴) کا ترجمہ ہے اور یہ جملہ کہ’’ تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا‘‘ اس میں صاف بیان ہے کہ وہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غیبی علوم تعلیم فرمائیں گے ،جیسا کہ قرآنِ کریم میں فرمایا ’’یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۱۵۱)(تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جوتمہیں معلوم نہیں تھا۔) اور ’’مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ (التکویر:۲۴)( یہ نبی غیب بتانے پر بخیل نہیں۔)‘‘(خزائن العرفان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ص۳۲۱)
{وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ:اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں۔} یعنی جو حلال و طیب چیزیں بنی اسرائیل پر ان کی نافرمانی کی وجہ سے حرام ہو گئی تھیں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں حلال فرما دیں گے اور بہت سی خبیث و گندی چیزوں کو حرام کریں گے۔
{وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ:اور ان کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں اتارتے ہیں جو ان پر تھیں۔} بوجھ سے مراد سخت تکلیفیں ہیں جیسا کہ توبہ میں اپنے آپ کو قتل کرنا اور جن اعضاء سے گناہ صادر ہوں ان کو کاٹ ڈالنا اور قید سے مراد مشقت والے احکام ہیں جیسا کہ بدن اور کپڑے کے جس مقام کو نجاست لگے اس کو قینچی سے کاٹ ڈالنا اور غنیمتوں کو جلانا اور گناہوں کا مکانوں کے دروازوں پر ظاہر ہونا وغیرہ۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ص۳۹۰)
{وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ:اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں۔} اس سے معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم اعتقادی، عملی، قولی، فعلی، ظاہری، باطنی ہر طرح لازم ہے بلکہ رکنِ ایمان ہے ۔
{وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ:اور نور کی پیروی کریں۔} اس نور سے قرآن شریف مراد ہے جس سے مومن کا دِل روشن ہوتا ہے اور شک و جہالت کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں اور علم و یقین کی ضیاء پھیلتی ہے۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۸)
{اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ:تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔} اس سے معلوم ہوا کہ حضر ت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دنیا و آخرت میں بھلائی لکھ دینے کی دعا اپنی امت کے لئے فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ شان امتِ محمدی کی ہے ، سُبْحَانَ اللہ اور ساتھ ہی اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فضائل اور امتِ مرحومہ کے مناقب انہیں سنا دئیے گئے، اس سے معلوم ہوا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پہلے بھی عالَم میں مشہور تھی مگر اس امت کی نیکیاں شائع کر دی گئی تھیں اور ان کے گناہوں کا ذکر نہ کیا تھا بلکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ بھی مشہور کر دئیے گئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ﳝ- وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ‘‘ (الفتح: ۲۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہ ان کی صفت توریت میں (مذکور) ہے اور ان کی صفت انجیل میں (مذکور) ہے۔