ترجمہ: کنزالایمان
اور جب تمہارے رب نے حکم سنادیا کہ ضرور قیامت کے دن تک ان پر ایسے کو بھیجتا رہوں گا جو انہیں بری مار چکھائے بیشک تمہارا رب ضرور جلد عذاب والا ہے اور بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور جب تمہارے رب نے اعلان کردیا کہ وہ ضرور قیامت کے دن تک ان پر ایسوں کو بھیجتا رہے گا جو انہیں برا عذاب دیتے رہیں گے بیشک تمہارا رب ضرور جلد عذاب دینے والا ہے اور بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذْ تَاَذَّنَ
رَبُّكَ:اور جب
تمہارے رب نے اعلان کردیا ۔} اس سے
پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی سرکشی، گناہ پر دیدہ دلیری اورا س کی سزا میں
مسخ کر کے بندر بنا دینے کا ذکر فرمایا اورا س آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا ہے کہ قیامت تک یہودیوں کے لئے ذلت اور
غلامی مقدر کر دی گئی ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۷، ۵ / ۳۹۳)
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ نے یہودیوں کے آباءواَجداد کو ان کے انبیاء عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان سے یہ خبر دی تھی کہ اللہ تعالیٰ
قیامت تک یہودیوں پر ایسے افراد مُسلَّط
کرتا رہے گا جو انہیں ذلت اور غلامی کا مزہ چکھاتے رہیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر بخت نصر، سنجاریب، اور
رومی عیسائی بادشاہوں کو مسلط فرمایا جو اپنے اپنے زمانوں میں یہودیوں کو سخت
ایذائیں پہنچاتے رہے۔ (خازن ، الاعراف، تحت
الآیۃ: ۱۶۷، ۲ / ۱۵۲)پھر مسلمان
سَلاطین ان پر مقرر ہوئے، پھر انگریزوں کی غلامی میں رہے،قریب کے دور میں جرمنی
میں ہٹلر نے انہیں چن چن کر قتل کیا اور اپنے ملک سے نکال دیا۔ یہودیوں کی حرکتیں
ہی ایسی ہیں کہ کوئی سلطنت انہیں اپنے ملک میں رکھنے پر آمادہ نہیں ہوتی یہی وجہ
ہے کہ موجودہ دور میں بھی کسی سلطنت نے اجتماعی طور پر انہیں اپنے ملک میں نہ رکھا
بلکہ انہیں فلسطین میں آباد کیا اور یہیں سے اِنْ شَآءَ اللہ
عَزَّوَجَلَّ ان کی بڑی تباہی کا آغاز
ہوگا۔
یہ سورت مکہ مکرمہ میں
نازل ہوئی ہے اور ایک روایت کے مطابق پانچ آیتوں کے علاوہ یہ سورت مکیہ ہے، ان
پانچ آیات میں سے پہلی آیت ’’ وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ‘‘ ہے۔ (خازن، الاعراف، ۲ / ۷۶)
اعراف کا معنی ہے بلند
جگہ، اس سورت کی آیت نمبر 46میں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ اعراف کا ذکر ہے
جو کہ بہت بلند ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اعراف ‘‘رکھا گیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے
قرآنِ پاک کی پہلی 7 بڑی سورتوں کوحفظ کیا اور ان کی تلاوت کرتا رہا تو یہ اس کے
لئے کثیر ثواب کا باعث ہے۔ (مستدرک، کتاب فضائل
القرآن، من اخذ السبع الاول من القرآن فہو خیر، ۲ / ۲۷۰، الحدیث: ۲۱۱۴)ان سات سورتوں میں سے ایک
سورت اعراف بھی ہے۔
یہ مکی سورتوں میں سب سے بڑی سورت ہے اور اس
سورت کا مرکزی مضمون یہ کہ اس میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
حالات اور انہیں جھٹلانے والی قوموں کے انجام کے واقعات بیان کر کے اس امت کے
لوگوں کو ان قوموں جیسا عذاب نازل ہونے سے ڈرانا، ایمان اور نیک اعمال کی
ترغیب دینا ہے۔ نیز اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد جیسےاللہ تعالیٰ
کی وحدانیت، اس کے وجود، وحی اور رسالت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور
اعمال کی جزاء ملنے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ
مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1)
…قرآن اللہ تعالیٰ
کا کلام اور اس کی نعمت ہے اور قرآنِ پاک کی تعلیمات کی پیروی ضروری ہے۔
(2)
…قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور کیا جائے گا۔
(3)
…دوبارہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا، اس میں
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، فرشتوں کا
انہیں سجدہ کرنا، شیطان کا سجدہ کرنے سے تکبر کرنا، شیطان کا مردود ہونا، حضرت
آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
ساتھ اس کی دشمنی اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی
جنت سے زمین کی طرف آمدکا بیان ہے۔
(4)
… کفار ومشرکین کے اخروی انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
(5)
…قیامت کے دن ایمان والوں کے حالات، جہنمیوں اور اَعراف والوں سے ہونے والی گفتگو
اور اہلِ جہنم کی آپس میں کی جانے والی گفتگو کابیان ہے۔
(6)
…اللہ تعالیٰ
نے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے اپنے وجود اور اپنی وحدانیت پر استدلال فرمایا ہے۔
(7)
…اس سورت میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کے علاوہ مزید یہ7واقعات بیان کئے گئے:
(1)
حضرت نوح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کاواقعہ۔
(2)حضرت
ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(3)
حضرت صالحعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(4)
حضرت لوط عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔
(5)
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
ان کی قوم کا واقعہ۔
(6)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
فرعون کا واقعہ۔
(7)
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
بلعم بن باعور کا واقعہ۔
(8)
…اس سورت کے آخر میں شرک کا تفصیلی رد، مَکارمِ اخلاق کی تعلیم، وحی کی پیروی
کرنے اور اللہ تعالیٰ
کی طرف رجوع کرنے کا بیان ہے۔
سورۂ اعراف کی اپنے سے
ماقبل سورت ’’اَنعام‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ اَنعام میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، سابقہ
امتوں کی ہلاکت اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاذکر اجمالی طور پر کیا گیا تھاجبکہ سورۂ اعراف میں ان تینوں
امور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ (تناسق
الدرر، سورۃ الاعراف،۸۷)