Home ≫ ur ≫ Surah Al Araf ≫ ayat 169 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْكِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ هٰذَا الْاَدْنٰى وَ یَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُ لَنَاۚ-وَ اِنْ یَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ یَاْخُذُوْهُؕ-اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْهِمْ مِّیْثَاقُ الْكِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ وَ دَرَسُوْا مَا فِیْهِؕ-وَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(169)
تفسیر: صراط الجنان
{ فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ:پھر ان کے بعد ایسے برے جانشین آئے۔} اس آیت میں بنی اسرائیل کے ناخلف جانشینوں کے چند عیب بیان کئے گئے ہیں :
(1)… وہ رشوت لے کر توریت کے احکام بدل دیتے۔
(2)… نافرمانی کے باوجود یہ کہتے کہ ہمارا یہ گناہ بخش دیا جائے گا ا س پر ہماری پکڑ نہ ہو گی۔
(3)… اس جرم پر قائم رہے کہ جب رشوت ملی اسے لے کر شرعی حکم بدل دیا۔
(4)…یہ سارے جرم نادانی میں نہیں بلکہ دیدہ و دانستہ کرتے رہے۔
اس آیت میں یہودیوں کی ایک سرکشی یہ بیان ہوئی کہ ’’ نافرمانیوں کے باوجود وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اورا س پر ان کی پکڑ نہ ہو گی‘‘ یہودیوں کی ا س سر کشی کی بنیاد یہ تھی کہ یہ لوگ اس زعم میں مبتلا تھے کہ ہم انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے ہیں اس لئے ان گناہوں پر ہم سے کچھ مُؤاخذہ نہ ہوگا۔ فی زمانہ بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں کہ جو اپنی بد اعمالیوں کے باوجود خود کوآخرت کے اجرو ثواب کا حق دار سمجھتے ہیں یونہی بعض سمجھدار قسم کے لوگ شیطان کے اس دھوکے میں پھنس کر گناہوں میں پڑے رہتے ہیں کہ ہم اگرچہ گناہگار ہیں لیکن فلاں کامل پیر صاحب کے مرید ہیں لہٰذا ہم بخشے جائیں گے اور گناہوں پرہماری پکڑ نہ ہو گی۔ ایسے حضرات خود ہی غور کر لیں کہ ان کا یہ طرزِ عمل کن کی عکاسی کر رہا ہے، شائد یہ وہی دور ہے کہ جس کی خبر اس روایت میں دی گئی ہے، حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’ عنقریب لوگوں کے سینوں میں قرآن اس طرح بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑا بوسیدہ ہو کر جھڑنے لگتا ہے، وہ کسی شوق اور لذت کے بغیر قرآنِ پاک کی تلاوت کریں گے، ان کے اعمال صرف طمع اور حرص ہوں گے۔وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف کی وجہ سے گناہوں میں کمی نہیں کریں گے۔ وہ برے کام کرنے کے باوجود تبلیغ کریں گے اور کہیں گے کہ عنقریب ہماری بخشش کر دی جائے گی کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔ (دارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فی تعاہد القرآن، ۲ / ۵۳۱، الحدیث: ۳۳۴۶)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’ہر وہ تَوَقُّع جو تو بہ یا عبادت میں سُرُور کی رغبت پیدا کرے وہ رَجاء (یعنی امید) ہے اور ہر وہ امید جو عبادت میں فُتور اور باطل کی طرف جھکاؤ پیدا کرے تو وہ دھوکہ ہے جیسے کسی شخص کے دل میں خیال پیدا ہو کہ وہ گناہ کو ترک کردے اور عمل میں مشغول ہوجائے اور شیطان اس سے کہے کہ تم اپنے آپ کو کیوں عذاب اور تکلیف میں ڈالتے ہو، تمہارا رب کریم ہے، غفور ہے، رحیم ہے اور وہ (اس وجہ سے) توبہ اور عبادت میں سستی کرنے لگے تو ایسا شخص دھوکے میں مبتلا ہے، اس صورت میں بندے پر لازم ہے کہ وہ نیک اعمال کرے اور اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے بہت بڑے عذاب سے ڈرائے اور کہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہونے کے ساتھ ساتھ سخت عذاب دینے والا بھی ہے، وہ اگرچہ کریم ہے لیکن وہ کفار کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈالے گا حالانکہ ان کا کفر اس کاکچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا بلکہ وہ عذاب، مشقت، بیماریا ں ، فقر اور بھوک وغیرہ جس طرح دنیا میں بندوں پر مُسلَّط کرتا ہے اسی طرح وہ اِن چیزوں کو اُن سے دور بھی کرسکتا ہے تو جس کا اپنے بندوں کے ساتھ یہ طریقہ ہے اور اس نے مجھے اپنے عذاب سے ڈرایا ہے تو میں اس سے کیسے نہ ڈروں اور میں کس طرح اس سے دھوکے میں رہوں۔
پس خوف اور امید دوراہنما ہیں جو لوگوں کو عمل کی ترغیب دیتے ہیں اور جو بات عمل کی رغبت پیدا نہ کرے وہ تمنا اور دھوکہ ہے اور اکثر لوگ جو امید لگائے بیٹھے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ عمل میں کوتاہی کرتے ہیں ، دنیا کی طرف متوجہ رہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ سے منہ پھیر تے ہیں اور آخرت کے لئے عمل نہیں کرتے تووہ دھو کے میں ہیں۔ نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس بات کی خبردی اور بیان فرمایا کہ’’ عنقریب اس امت کے پچھلے لوگوں کے دلوں پر دھوکہ غالب ہوجائے گا۔ آپ نے جو فرمایا وہ ہو کررہا ،جیسا کہ پہلے زمانے کے لوگ دن رات عبادت اور نیک اعمال کرتے رہتے تھے اس کے باوجود اُن کے دلوں میں یہ خوف رہتا تھا کہ انہوں نے اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے، وہ رات دن عبادت میں گزارنے کے باوجود اپنے نفسوں کے بارے میں خوفزدہ رہتے تھے، وہ بہت زیادہ تقویٰ اختیار کرنے، خواہشات اور شُبہات سے بچنے کے باوجود تنہائی میں اپنے نفسوں کے لئے روتے تھے۔ لیکن اب حالت یہ ہے کہ تم لوگوں کو مطمئن، خوش اور بے خوف دیکھو گے حالانکہ وہ گناہوں پر اوندھے گرتے ہیں ، دنیا میں پوری توجہ رکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے منہ پھیر رکھا ہے،ان کا خیال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر کامل یقین رکھتے ہیں ، اس کے عفو و درگزر اور مغفرت کی امید رکھتے ہیں گویا ان کاگمان یہ ہے کہ انہوں نے جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی معرفت حاصل کی ہے اس طرح انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور پہلے بزرگوں کو حاصل نہ تھی، اگر یہ بات (یعنی عَفْو و مغفرت) محض تمنا اور آسانی سے حاصل ہو جاتی تو (نیک اعمال کے باوجود) ان بزرگوں کے رونے، خوف کھانے اور غمگین ہونے کا کیا مطلب تھا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الغرور، بیان ذمّ الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۷۳-۴۷۴)
اس کے علاوہ ان علماء کو بھی اپنے طرزِ عمل پر غور کی حاجت ہے کہ جو خود تو عوام میں مُقتداء کی حیثیت رکھتے ہیں اور اپنی اولاد کی اچھی دینی تعلیم وتربیت سے غفلت کا شکار ہیں ، جب ان کی اولاد جانشینی کی مسند پر جلوہ افروز ہو گی تو کہیں یہ بھی انہی خرابیوں کا شکار نہ ہو جائے جن کا بنی اسرائیل کے جانشین ہوئے۔