banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 171 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

وَ اِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَاَنَّهٗ ظُلَّةٌ وَّ ظَنُّوْۤا اَنَّهٗ وَاقِعٌۢ بِهِمْۚ-خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(171)

ترجمہ: کنزالایمان اور جب ہم نے پہاڑ ان پر اٹھایا گویا وہ سائبان ہے اور سمجھے کہ وہ ان پر گر پڑے گا لو جو ہم نے تمہیں دیا زور سے اور یاد کرو جو اس میں ہے کہ کہیں تم پرہیزگار ہو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور یاد کرو جب ہم نے پہاڑ ان کے اوپر بلند کردیا گویا وہ سائبان ہے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ ان پر گرنے ہی والا ہے (اور ہم نے کہا) جو ہم نے تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کرو تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ:اور یاد کرو، جب ہم نے پہاڑ ان کے اوپر بلند کردیا۔} جب بنی اسرائیل نے تکالیفِ شاقّہ کی وجہ سے توریت کے احکام قبول کرنے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام     نے  ایک پہاڑ جس کی مقدار ان کے لشکر کے برابر تھی یعنی تین میل لمبا اور تین میل چوڑا پہاڑ اُٹھا کر سائبان کی طرح اُن کے سروں کے قریب کردیا اور اُن سے کہا گیا کہ توریت کے احکام قبول کرو ورنہ یہ تم پر گرا دیا جائے گا۔ پہاڑ کو سروں پر دیکھ کر سب کے سب سجدے میں گر گئے۔مگر اس طرح کہ بایاں رخسارا ورابرو تو انہوں نے سجدے میں رکھ دی ا ور دائیں آنکھ سے پہاڑ کو دیکھتے رہے کہ کہیں گر ہی نہ پڑے، چنانچہ اب تک یہودیوں کے سجدے کی یہی شان ہے ۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۱، ۲ / ۷۲۳)

قرآنِ کریم کا آہستہ آہستہ نزول اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کا 23 سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ اتر نا بھی  اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی خاص رحمت ہے کہ اس طرح مسلمانوں کو تمام احکامات پر عمل آسان ہو گیا۔ آزاد طبیعت ایک دم سارے احکام کی پابندی میں دِقت محسوس کرتی ہے ۔