banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 178 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِیْۚ-وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(178)وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ ﳲ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا٘-وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا٘-وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ(179)

ترجمہ: کنزالایمان جسے اللہ راہ دکھائے تو وہی راہ پر ہے اور جسے گمراہ کرے تو وہی نقصان میں رہے۔ اور بیشک ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیے بہت جن اور آدمی وہ دل رکھتے ہیں جن میں سمجھ نہیں اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتے نہیں وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ وہی غفلت میں پڑے ہیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان جسے اللہ ہدایت دے تو وہی ہدایت یافتہ ہوتا ہے اور جنہیں اللہ گمراہ کردے تو وہی نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ اور بیشک ہم نے جہنم کے لیے بہت سے جنات اور انسان پیدا کئے ہیں ان کے ایسے دل ہیں جن کے ذریعے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی ایسی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے ایسے کان ہیں جن کے ذریعے وہ سنتے نہیں ، یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ،یہی لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ:جسے اللہ ہدایت دے ۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہدایت اور گمراہی دونوں کو پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جبکہ ان میں سے کسی کو اختیار کرنا بندے کی طرف سے ہے ،لہٰذا بندہ اگر ہدایت اختیار کرتا ہے تو اللہ  تعالیٰ  اس میں ہدایت پیدا فرما دیتا ہے اور اگر وہ گمراہی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں گمراہی پیدا فرما دیتا ہے۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۸، ۳ / ۲۷۹)

}وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ:اور بیشک ہم نے جہنم کے لیے پیدا کئے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ بہت سے جِنّات اور انسانوں کا انجام جہنم میں داخلہ ہوگا۔ جنوں اور انسانوں کو پیدا کرنے کا اصل مقصد تواللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت ہے جیسا کہ اِس آیت میں ہے :

’’ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ‘‘ (الذاریات:۵۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔

             لیکن ان میں سے بہت کا انجامِ کار جہنم ہے۔اس آیت کے لفظ ’’ لِجَہَنَّمَ‘‘ کی ابتداء میں مذکور لام’’ لامِ عاقبت‘‘ ہے۔ عربی سے واقف حضرات اسے آسانی سے سمجھ لیں گے۔            

{لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا: ان کے ایسے دل ہیں جن کے ذریعے وہ سمجھتے نہیں۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے ہولناک انجام کی وجہ بیان فرمائی کہ یہ جہنم کا ایندھن اس لئے بنے کہ ان کے ایسے دل ہیں جن کے ذریعے وہ حق سے اِعراض کرکے آیاتِ اِلٰہیہ میں تَدَبُّر کرنے سے محروم ہوگئے حالانکہ یہی دل کا خاص کام تھا۔ ان کی ایسی آنکھیں ہیں کہ جن کے ساتھ وہ حق و ہدایت کا راستہ، اللہ  تعالیٰ  کی روشن نشانیاں اور توحید کے دلائل نہیں دیکھتے۔ ان کے ایسے کان ہیں جن کے ذریعے وہ قرآن کی آیات اور اس کی نصیحتیں قبول کرنے کیلئے نہیں سنتے اور قلب و حواس رکھنے کے باوجود وہ اُمورِ ِدین میں اُن سے نفع نہیں اٹھاتے لہٰذا یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ۲ / ۱۶۲)

کافروں کو جانوروں سے بد تر فرمائے جانے کی وجوہات:

             کفار کو جانوروں سے بد تر فرمانے کی متعدد وُجوہات ہیں :

(1)…جانوروں میں اللہ تعالیٰ کی آیات سمجھنے، دیکھنے اور سننے کی قوت ہی نہیں لہٰذا اگر وہ نہ سمجھیں تو معذور ہیں لیکن کفار کے اعضا میں یہ قوت ہے، پھر بھی وہ اس سے کام نہیں لیتے لہٰذا وہ جانوروں سے بد تر ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ۲ / ۱۶۲)

(2)…چوپایہ بھی اپنے نفع کی طرف بڑھتا ہے اور ضَرر سے بچتا اور اس سے پیچھے ہٹتا ہے لیکن کافر جہنم کی راہ پر چل کر اپنا ضرر اختیار کرتا ہے تو اس سے بدتر ہوا۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ص۳۹۶)

(3)…جانور اپنے مالک کے کہنے پر چلتے ہیں جبکہ کافر نافرمان ہیں کہ اپنے مالک ِ حقیقی خداوند ِ قُدوس کے احکام کی مخالفت کرتے ہیں ا س لئے جانوروں سے بد تر ہیں۔ امام عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’آدمی روحانی ، شَہوانی، سَماوی، اَرضی ہے جب اس کی روح شہوت پر غالب ہوجاتی ہے تو ملائکہ سے فائق ہوجاتا ہے اور جب شہوات روح پر غلبہ پاجاتی ہیں تو زمین کے جانوروں سے بدتر ہوجاتا ہے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ص۳۹۶)