banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 2 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

الٓـمّٓصٓ(1)كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ فَلَا یَكُنْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَ ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ(2)اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَؕ-قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ(3)

ترجمہ: کنزالایمان اے محبوب ۔ ایک کتاب تمہاری طرف اُتاری گئی تو تمہارا جی اس سے نہ رُکے اس لیے کہ تم اس سے ڈر سناؤ اور مسلمانوں کو نصیحت۔ اے لوگواس پر چلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اُترا اور اسے چھوڑ کر اور حاکموں کے پیچھے نہ جاؤ بہت ہی کم سمجھتے ہو۔ ترجمہ: کنزالعرفان المص۔ اے حبیب ! (یہ) ایک کتاب ہے جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے تا کہ آپ اس کے ذریعے ڈر سنائیں اور مومنوں کے لئے نصیحت ہے پس آپ کے دل میں اس کی طرف سے کوئی تنگی نہ ہو۔ اے لوگو! تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف جونازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر اور حاکموں کے پیچھے نہ جاؤ۔تم بہت ہی کم سمجھتے ہو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ الٓـمّٓصٓ:} یہ حروفِ مُقَطّعات ہیں ، ان کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

{ كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ:اے محبوب! ایک کتاب تمہاری طرف اُتاری گئی۔}یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ کتاب یعنی قرآنِ پاک آپ کی طرف اس لئے نازل کیا گیا تاکہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کواللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرائیں۔ پس آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے دل میں لوگوں کے سابقہ طرزِ عمل کی وجہ سے اور اس خیال سے کہ لوگ نہ مانیں گے اور اس پر اعتراض کریں گے اور اسے جھٹلانے لگیں گے اس کی تبلیغ فرمانے سے کوئی تنگی نہ آئے، آپ  ان کفار کی مخالفت کی ذرہ بھر پروا نہ کریں۔

تکالیف کی وجہ سے تبلیغِ دین میں دل تنگ نہیں ہونا چاہیے:

            اس آیت میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکین و تسلی اور حوصلہ افزائی ہے اور اس کے ذریعے امت کے تمام مبلغین کو درس اور سبق ہے کہ لوگوں کے نہ ماننے یا تکلیفیں دینے کی وجہ سے تبلیغِ دین میں دل تنگ نہیں ہونا چاہیے۔ نیکی کی دعوت کا کام ہی ایسا ہے کہ اس میں تکالیف ضرور آتی ہیں۔ اسی لئے تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بے پناہ تکلیفیں اٹھائیں اور ان کے واقعات قرآنِ پاک میں بکثرت موجود ہیں۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آگ میں ڈالا جانا، اپنے ملک سے ہجرت کرنا، لوگوں کا آپ کو تنگ کرنا یونہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہجرت کرنا، فرعون کا آپ کے مقابلے میں آنا، آپ کو جادوگر قرار دینا، آپ کو گرفتار کرنے کے منصوبے بنانا یونہی سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بے پناہ تکلیفیں اٹھانا، راستے میں کانٹے بچھانا، آپ کو شہید کرنے کے منصوبے بنانا، آپ کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کرنا، آپ کو جادوگر، کاہن، شاعر کہنا، آپ سے جنگ کرنا وغیرہ یہ ساری چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ راہِ تبلیغ میں تکالیف آنا ایک معمول کی چیز ہے اور انہیں برداشت کرنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ آیت میں فرمایا گیا کہ یہ قرآن مومنوں کیلئے نصیحت ہے، اب یہاں آج کے مومنین و مسلمین سے بھی عرض ہے کہ ذرا اپنے احوال و اعمال پر غور کریں کہ کیا یہ قرآن سے نصیحت حاصل کررہے ہیں ؟ یا انہیں قرآن کھولنے، پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی؟