banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 22 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(19)فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ(20)وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ(21)فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍۚ-فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِؕ-وَ نَادٰىهُمَا رَبُّهُمَاۤ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَّكُمَاۤ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(22)

ترجمہ: کنزالایمان اور اے آدم تو اور تیرا جوڑا جنت میں رہو تو اُس میں سے جہاں چاہو کھاؤ اور اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو گے۔ پھر شیطان نے ان کے جی میں خطرہ ڈالا کہ ان پر کھول دے ان کی شرم کی چیزیں جو ان سے چھپی تھیں اور بولا تمہیں تمہارے رب نے اس پیڑ سے اسی لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم دو فرشتے ہوجاؤ یا ہمیشہ جینے والے۔ اور ان سے قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ تو اُتار لایا انہیں فریب سے پھر جب انہوں نے وہ پیڑ چکھا ان پر اُن کی شرم کی چیزیں کھل گئیں اور اپنے بدن پر جنت کے پتے چپٹانے لگے اور انہیں ان کے رب نے فرمایا کیا میں نے تمہیں اس پیڑ سے منع نہ کیا اور نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو پھر اُس میں سے جہاں چاہو کھاؤ اور اُس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں سے ہو جاؤگے۔ پھر شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا تاکہ ان پر ان کی چھپی ہوئی شرم کی چیزیں کھول دے اور کہنے لگا تمہیں تمہارے رب نے اس درخت سے اسی لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤ۔ اور ان دونوں سے قسم کھاکر کہا کہ بیشک میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں ۔ تو وہ دھوکہ دے کر ان دونوں کو اُتار لایا پھر جب انہوں نے اس درخت کا پھل کھایا تو ان کی شرم کے مقام ان پر کھل گئے اور وہ جنت کے پتے ان پر ڈالنے لگے اور انہیں ان کے رب نے فرمایا: کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ: اور اے آدم! تم رہو ۔}اس آیت اور بعد والی چند آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیطان کو ذلیل و رسوا کر کے جنت سے نکال دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ آپ اور آپ کی بیوی حضرت حوا  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا جنت میں رہو اور جنتی پھلوں میں سے جہاں چاہو کھاؤ لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا۔ وہ درخت گندم تھا یا کوئی اور، ( جو بھی رب تعالیٰ کے علم میں ہے ۔) شیطان نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کو وسوسہ ڈالا چنانچہ ابلیس ملعون نے اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھاتے ہوئے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: ’’اس درخت میں یہ تاثیر ہے کہ اس کا پھل کھانے والا فرشتہ بن جاتا ہے یا ہمیشہ کی زندگی حاصل کرلیتا ہے اور اس کے ساتھ ممانعت کی کچھ تاویلیں کرکرا کے دونوں کو اس درخت سے کھانے کی طرف لے آیا۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دل میں چونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام کی عظمت انتہا درجے کی تھی اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو گمان بھی نہ تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھا کر کوئی جھوٹ بھی بول سکتا ہے نیز جنت قربِ الہٰی کا مقام تھا اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی اُس مقامِ قرب میں رہنے کا اشتیاق تھا اور فرشتہ بننے یا دائمی بننے سے یہ مقام حاصل ہوسکتا ہے لہٰذا آپ نے شیطان کی قسم کا اعتبار کر لیا اور ممانعت کو محض تنزیہی سمجھتے ہوئے یا خاص درخت کی ممانعت سمجھتے ہوئے اسی جنس کے دوسرے درخت سے کھالیا۔ اس کے کھاتے ہی جنتی لباس جسم سے جدا ہوگئے اور پوشیدہ اعضاء ظاہر ہوگئے۔ جب بے سَتری ہوئی  تو ان بزرگوں نے انجیر کے پتے اپنے جسم شریف پر ڈالنے شروع کر دئیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا: ’’ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ دونوں نے عرض کی: اے ہمارے رب !عَزَّوَجَلَّ،ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم و حوا !تم اپنی ذریت کے ساتھ جو تمہاری پیٹھ میں ہے جنت سے اترجاؤ ،تم میں ایک دوسرے کا دشمن ہے اور تمہارے لئے زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور دنیاوی زندگی سے نفع اٹھانا ہے۔

{ وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ: اور وہ دونوں چپٹانے لگے۔} حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکے لباس جدا ہوتے ہی دونوں کا پتوں کے ساتھ اپنے بدن کو چھپانا شروع کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ پوشیدہ اعضاء کا چھپانا انسانی فطرت میں داخل ہے۔ لہٰذا جو شخص ننگے ہونے کو فطرت سمجھتا ہے جیسے مغربی ممالک میں ایک طبقے کا رجحان ہے تو وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی فطرتیں مَسخ ہوچکی ہیں۔