banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 29 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ- وَ اَقِیْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ ادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ۬ؕ-كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَﭤ(29)

ترجمہ: کنزالایمان تم فرماؤ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے اور اپنے منہ سیدھے کرو ہر نماز کے وقت اور اس کی عبادت کرو نرے اس کے بندے ہوکر جیسے اس نے تمہارا آغاز کیا ویسے ہی پلٹو گے۔ ترجمہ: کنزالعرفان تم فرماؤ :میرے رب نے عدل کا حکم دیا ہے اور (یہ کہ) ہر نماز کے وقت تم اپنے منہ سیدھے کرو اور عبادت کو اسی کے لئے خالص کرکے اس کی بندگی کرو۔ اس نے جیسے تمہیں پیدا کیا ہے ویسے ہی تم پلٹو گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ:تم فرماؤ :میرے رب نے عدل کا حکم دیا ہے۔} اس سے پہلی آیات میں ان بری باتوں کا ذکر تھا جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اوراِس آیت میں ان اعمال کا ذکر کیا گیا ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور جن سے وہ راضی ہے تاکہ بندے پہلی قسم کے کاموں سے بچیں اور دوسری قسم کے کام کریں۔ (تفسیر نعیمی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۸ / ۳۸۲)

قسط کے معنی:

            قسط کے کئی معنی ہیں (1) حصہ۔ (2) عدل و انصاف۔ (3) ظلم۔ (4) درمیانی چیز یعنی جس میں اِفراط و تَفریط یعنی کمی زیادتی نہ ہو ۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہاں آیت میں ’’قسط‘‘ عدل وانصاف کے معنی میں ہے۔ یہ لفظ بہت سی چیزوں کو شامل ہے، عقائد میں عدل و انصاف کرنا، عبادات میں عدل کرنا، معاملات میں عدل کرنا، بادشاہ کا عدل کرنا، فقیر کا انصاف کرنا، اپنی اولاد، رشتہ داروں اور اپنے نفس کے معاملے میں عدل کرنا وغیرہ یہ سب اس میں داخل ہے۔ (بیضاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۱۶، روح المعانی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۴ / ۴۸۴)

{ وَ اَقِیْمُوْا وُجُوْهَكُمْ: اور تم اپنے منہ سیدھے کرو ۔} مفسرین نے اس آیت کے مختلف معنی بیان فرمائے ہیں ،امام مجاہد اور مفسر سُدّی کا قول ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ تم جہاں بھی ہو نماز کے وقت اپنے چہرے کعبہ کی طرف سیدھے کر لو۔ امام ضحاک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس کا معنی یہ ہے کہ جب نماز کا وقت آئے اور تم مسجد کے پاس ہو تو مسجد میں نماز ادا کرو اور تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں اپنی مسجد میں یا اپنی قوم کی مسجد میں نماز ادا کروں گا۔اور ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ تم اپنے سجدے خالص اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے کر لو۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۱۳۰، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۸۷، ملتقطاً)

{ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ:خالص اس کے بندے ہو کر۔}اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی عبادت صرف اس کی رضا حاصل کرنے یا اس کے حکم کی بجا آوری کی نیت سے کی جائے ،اس میں کسی کو دکھانے یا سنانے کی نیت ہو، نہ اس میں کسی اور کو شریک کیا جائے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۸۷، ملتقطاً)

اخلاص کی حقیقت اور عمل میں اخلاص کے فضائل:

            امام راغب اصفہانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی عبادت (اور اس کی رضا جوئی) کے علاوہ ہر ایک کی عبادت( اور اس کی رضا جوئی) سے بری ہو جائے۔ (مفردات امام راغب، کتاب الخاء، ص۲۹۳)کثیر احادیث میں اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کے فضائل بیان ہوئے ہیں ، ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’جس مسلمان میں یہ تین اوصاف ہوں اس کے دل میں کبھی کھوٹ نہ ہو گا:(1) اس کا عمل خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ (2)وہ آئمہ مسلمین کے لئے خیر خواہی کرے۔ (3)اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑ لے۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی الحث علی تبلیغ السماع، ۴ / ۲۹۹، الحدیث: ۲۶۶۷)

(2)…حضرت سعدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس امت کے کمزور لوگوں کی دعاؤں ، ان کی نمازوں اور ان کے اخلاص کی وجہ سے اِس امت کی مدد فرماتا ہے۔ (نسائی، کتاب الجہاد، الاستنصار بالضعیف، ص۵۱۸، الحدیث: ۳۱۷۵)

(3)…حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو جب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یمن کی طرف بھیجا تو انہوں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ ! مجھے کوئی وصیت کیجئے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اپنے دین میں اخلاص رکھو ،تمہا را تھوڑا عمل بھی کافی ہو گا۔ (مستدرک، کتاب الرقاق، ۵ / ۴۳۵، الحدیث: ۷۹۱۴)

ترکِ اخلاص کی مذمت:

            جس طرح احادیث میں اخلاص کے فضائل بیان ہوئے ہیں اسی طرح ترک ِاخلاص کی بھی بکثرت مذمت کی گئی ہے، چنانچہ ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میں شریک سے بے نیاز ہوں ، جس شخص نے کسی عمل میں میرے ساتھ میرے غیر کو شریک کیا میں اسے اور ا س کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب من اشرک فی عملہ غیر اللہ، ص۱۵۹۴، الحدیث: ۴۶(۲۹۸۵))

(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کے دن مہر لگے ہوئے نامۂ اعمال لائے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: ’’اس اعمال نامے کو قبول کر لواور اس اعمال نامے کو چھوڑ دو۔ فرشتے عرض کریں گے: تیری عزت کی قسم! ہم نے وہی لکھا ہے جو اس نے عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’تم نے سچ کہا، (مگر) اس کا عمل میری ذات کے لئے نہ تھا، آج میں صرف اسی عمل کو قبول کروں گا جو میری ذات کے لئے کیا گیا ہو گا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۳۲۸، الحدیث: ۶۱۳۳)

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن سب سے پہلے ایک شہید کا فیصلہ ہو گا، جب اسے لایا جائے گاتو اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا۔ وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا عمل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک کے شہید ہو گیا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: تو جھوٹا ہے ،تو نے جہاد اس لئے کیا تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں جہنم میں جانے کا حکم دے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر اس شخص کو لایا جائے گاجس نے علم سیکھا، سکھایا اور قرآنِ پاک پڑھا، وہ آئے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا۔پھر اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کِیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیرے لئے قرآنِ کریم پڑھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: تو جھوٹا ہے ،تو نے اس لیے علم سیکھا تاکہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآنِ پاک اس لیے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔ پھر اسے بھی جہنم میں ڈالنے کا حکم ہو گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا پھر ایک مالدار شخص کو لایا جائے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کا مال عطا فرمایا تھا، اسے لا کر نعمتیں یاد دلائی جائیں گی تووہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے کیا کِیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے تیری راہ میں جہاں ضرورت پڑی وہاں خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: تو جھوٹا ہے ،تو نے یہ سخاوت اس لیے کی تھی کہ تجھے سخی کہا جائے اور وہ کہہ لیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں جہنم کا حکم ہوگا تو اسے بھی منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب من قاتل للریاء والسمعۃ استحق النار، ص۱۰۵۵، الحدیث: ۱۵۲(۱۹۰۵))

{ كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَ:اس نے جیسے تمہیں پیدا کیا ہے ویسے ہی تم پلٹو گے۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے ابتدا ہی سے بنی آدم میں سے بعض کو مومن اور بعض کو کافر پیدا فرمایا، پھر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں ویسے ہی لوٹائے گا جیسے ابتداء میں پیدا فرمایا تھا، مومن مومن بن کر اور کافر کافر بن کر۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۸۷)

            اس آیت کی تفسیر میں حضرت محمد بن کعب رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ جسے اللہ تعالیٰ نے ابتداء ہی سے شقی اور بد بخت لوگوں میں سے پیدا کیا ہے وہ قیامت کے دن اہلِ شقاوت سے اٹھے گا چاہے وہ پہلے نیک کام کرتا ہو جیسے ابلیس لعین، اسے اللہ تعالیٰ نے بد بختوں میں سے پیدا کیا تھا، یہ پہلے نیک اعمال کرتا تھا بالآخر کفر کی طرف لوٹ گیا اور جسے اللہ تعالیٰ نے ابتداء ہی سے سعادت مند لوگوں میں سے پیدا کیا وہ قیامت کے دن سعادت مندوں میں سے اٹھے گا اگرچہ پہلے وہ برے کام کرتا رہا ہو، جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے کے جادو گر، یہ پہلے فرعون کے تابع تھے لیکن بعد میں فرعون کو چھوڑ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آئے۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۱۳۰) اور اس آیت کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے کہ’’ جس طرح انسان ماں کے پیٹ سے ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور ختنہ کے بغیر پیدا ہوا تھا قیامت کے دن بھی اسی طرح ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور ختنہ کے بغیر اٹھے گا۔ (تفسیرات احمدیہ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۴۱۴)

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم قیامت میں ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور ختنہ کے بغیر اٹھائے جاؤ گے۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی: واتخذ اللہ ابراہیم خلیلاً،  ۲ / ۴۲۰، الحدیث: ۳۳۴۹)